گرما کی شدت کے ساتھ قیمتوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ، عوام کا جینا محال ، حکومت خاموش تماشائی
حیدرآباد ۔ 28 ۔ مئی : ( سیاست نیوز ) : شہر میں گرمی کے درجہ حرارت کی طرح ترکاریوں کی قیمتوں میں اضافہ تشویش کا باعث بنا ہوا ہے ۔ ایک طرف مہنگائی اور اب دوسری طرف گرمی کے ساتھ ساتھ ترکاری کی قیمتوں میں اضافہ غریب و اوسط درجہ کے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کا سبب بن گیا ہے ۔ اب جب کہ ماہ صیام کی آمد آمد ہے ایسی صورت میں ترکاریوں کی قیمتوں میں اضافہ کالا بازاریوں اور بڑے تاجرین کی سازش تصور کیا جارہا ہے ۔ ترکاری کی قیمتوں پر قابو پانا اور موثر انداز میں مارکیٹ تک اشیاء کی فراہمی اور فروخت پر نظر رکھنے والے محکمہ کی غفلت شہریوں کی تشویش میں مزید اضافہ کا موجب بن گئی چونکہ اگر فی الفور مارکٹ میں قیمتوں پر قابو پانے کے اقدامات نہیں کئے جاتے ہیں تو رمضان المبارک میں مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا چونکہ ٹماٹر جس کی قیمت دو ہفتہ قبل 15 روپئے فی کیلو تھی آج 40 روپئے فروخت ہورہا ہے ۔ باورچی خانے میں جس طرح نمک اہمیت کا حامل ہے اسی طرح غریب و اوسط درجہ کے خاندانوں میں ٹماٹر بھی کافی اہمیت رکھتا ہے ۔ جب کہ اس طرح دیگر ترکاریوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے تاہم مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ ہر سال کی عام حالت بتاتے ہوئے اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ رہا ہے ۔ ہر سال جون اور جولائی کے مہینوں میں قیمتوں میں اضافہ کی بات بتائی جاتی ہے ۔ تاہم اگر سنجیدگی سے اقدامات کئے جاتے ہیں تو ترکاری کی قیمتوں میں مکمل حد تک نہ سہی کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے اور رمضان المبارک کے مہینے میں سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں ۔ مارکیٹ میں ترکاری کی قیمتوں میں اضافہ پر قابو پانے کے لیے سرکاری طور پر سنجیدگی سے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ بوئن پلی ہول سیل مارکیٹ میں ٹماٹر کی قیمت 20 تا 25 روپئے فی کیلو ہے اور یہاں سے ریٹیل مارکیٹ میں قیمت دگنی ہوتی جارہی ہے اور جو ترکاریاں 20 تا 25 روپئے فی کیلو ہے ۔ مارکیٹ کے ریٹیل میں 30 تا 60 روپئے فی کیلو ہوجاتی ہے ۔ مارکیٹ میں بڑے تاجرین اور کالا بازاریوں کے ساتھ مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کی مبینہ ملی بھگت قیمتوں میں اضافہ کا موجب بنتی جاری ہے تاہم طلب کے مطابق درآمد کی قیمتوں میں اضافہ کی اہم وجہ بتایا جارہا ہے ۔ مارکیٹ ڈپارٹمنٹ ذرائع کے مطابق شہر حیدرآباد میں ہر روز 400 ٹن ٹماٹر کی ضرورت درکار ہے ۔ تاہم صرف 250 ٹن ٹماٹر ہی درآمد ہورہے ہیں ۔ مدن پلی اور بنگلور کی مارکیٹ ہی پر انحصار کرنا پڑتا ہے ۔ تاہم ان مقامات پر قیمت اگر زائد ہوجاتی ہے تو پھر حیدرآباد کی مارکیٹ تک ترکاریوں بالخصوص ٹماٹر کا پہونچنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے ۔ زیر زمین پانی کی کمی سے جن مقامات پر بورویل ہیں ان مقامات پر بھی ترکاری کی فصلیں خاطر خواہ مقدار میں دستیاب نہیں ہے ۔ تاہم اب بارش پر ہی انحصار کرنا پڑے گا ۔ ایسے امکانات بتائے جاتے ہیں ترکاری کی فصلوں کو 30 دن ، 45 تا 65 دن درکار ہوتے ہیں ۔ اس لحاظ سے فصل آنے تک دو ماہ کا عرصہ گذر جائے گا ۔ اور اس دوران رمضان بھی گذر جائے گا ۔ لہذا حکومت کو کالا بازاری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے رمضان میں ترکاریوں پر قابو پانے کے اقدامات کرنے چاہئے تاکہ شہریوں کو راحت فراہم کی جاسکے ۔۔