شہری علاقوں سے فوجی اداروں اور تنصیبات کی منتقلی کیلئے مرکز سے نمائندگی کا فیصلہ

ضلع رنگاریڈی میں اراضی کی تلاش، مہدی پٹنم اور کنٹونمنٹ واقعات سے عوام کو مشکلات پر حکومت تلنگانہ کا غور وخوض

حیدرآباد۔/2نومبر، ( سیاست نیوز) شہری علاقوں میں فوجی اداروں اور تنصیبات کی موجودگی کے سبب عوام کو پیش آنے والی دشواریوں کو دیکھتے ہوئے تلنگانہ حکومت نے فوجی تنصیبات اور ان کے اداروں کی آبادی سے منتقلی کیلئے مرکز سے نمائندگی کا فیصلہ کیا ہے۔ تلنگانہ حکومت مرکزی وزارت دفاع سے اس سلسلہ میں نہ صرف نمائندگی کی تیاری کررہی ہے بلکہ رنگاریڈی میں موزوں اراضی کی نشاندہی بھی کرے گی جہاں فوجی تنصیبات کو منتقل کیا جاسکتا ہے۔ حالیہ عرصہ میں گولکنڈہ، مہدی پٹنم اور سکندرآباد میں واقع فوجی ادارہ جات اور تنصیبات کے سبب عوام اور فوج کے درمیان مختلف اُمور پر تنازعات پیدا ہوئے ہیں۔ سکندرآباد کنٹونمنٹ میں فوج کی جانب سے کئی اہم راستوں کی ناکہ بندی کردی گئی جس کے سبب اطراف کے رہائشی علاقوں کی آبادی کو مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اس مسئلہ پر اگرچہ ہائی کورٹ نے بھی مداخلت کی پھر بھی راستہ کی بحالی کا مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔ اسی طرح مہدی پٹنم میں حالیہ عرصہ میں ایک طالب علم کو فوجیوں کی جانب سے مبینہ طور پر جلادینے کا واقعہ بھی منظر عام پر آیا ہے۔ اس طرح کے واقعات کے پس منظر میں عوام کی جانب سے حکومت پر مسلسل دباؤ بڑھ رہا تھا کہ وہ فوجی اداروں اور تنصیبات کو شہر کے باہر منتقل کرنے کے اقدامات کرے۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ اس مسئلہ کا جائزہ لیا اور مرکزی وزارت دفاع سے نمائندگی کا فیصلہ کیا ہے۔ جس وقت یہ دفاعی ادارے قائم کئے گئے تھے اس وقت موجودہ علاقے مضافاتی حدود میں تصور کئے جاتے تھے لیکن آج دفاعی ادارے گنجان آبادیوں کے درمیان آچکے ہیں جس کے سبب سیکورٹی اور رازداری کی بنیاد پر فوج کی جانب سے آبادیوں پر مختلف تحدیدات عائد کی جارہی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ چیف منسٹر نے عہدیداروں کو ہدایت دی کہ وہ رنگاریڈی ضلع میں کسی موزوں مقام پر دفاعی تنصیبات کے قیام کے سلسلہ میں اراضی کی نشاندہی کریں تاکہ اس اراضی کے بارے میں وزارت دفاع کو واقف کرایا جاسکے۔ چیف منسٹر چاہتے ہیں کہ رنگاریڈی میں ایک ہی مقام پر تمام دفاعی ادارے قائم کئے جائیں جو فی الوقت شہر کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ سکندرآباد کنٹونمنٹ، مہدی پٹنم، لنگر حوض اور گولکنڈہ میں دفاعی اداروں کی مختلف شاخیں موجود ہیں اور خاص طور پر شام کے اوقات میں ان اداروں کے اطراف واکناف کی آبادیوں پر فوج کی جانب سے تحدیدات عائد کی جارہی ہیں۔ حکومت کا ماننا ہے کہ دفاعی اداروں کی شہری علاقوں سے منتقلی کی صورت میں نہ صرف فوج کو اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں مدد ملے گی بلکہ اداروں کی راز داری بھی برقرار رہے گی۔ واضح رہے کہ سکندرآباد کنٹونمنٹ ملک کا سب سے بڑا کنٹونمنٹ علاقہ ہے جو 1798ء میں قائم کیا گیا تھا جو 40.17مربع کلو میٹر اراضی پر محیط ہے۔ اطراف کے علاقوں میں دن بہ دن آبادی میں اضافہ سے فوج کے روز مرہ کے معمولات متاثر ہورہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت دفاعی اداروں کی منتقلی کے سلسلہ میں ایک جامع منصوبہ کے ساتھ مرکزی حکومت سے رجوع ہوگی۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور عوامی نمائندوں نے بھی چیف منسٹر سے اس سلسلہ میں مداخلت کی خواہش کی تھی جس پر کے سی آر نے عہدیداروں کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لیا اور آبادیوں سے دفاعی اداروں کی منتقلی کے امکانات تلاش کئے۔ فوجی اداروں کے علاوہ پرانے شہر کے سنتوش نگر، کنچن باغ اور اس سے متصل علاقوں میں بھی کئی دفاعی ادارے قائم ہیں جن کے باعث اطراف کی آبادیوں میں بلند عمارتوں کی تعمیر پر پابندی عائد ہے۔ اس کے علاوہ یہ ادارے عملاً آبادیوں میں گھر چکے ہیں لہذا عوام کا مطالبہ ہے کہ روز مرہ کی دشواریوں اور دفاعی اداروں کو اپنی سرگرمیاں آزادانہ طور پر جاری رکھنے کیلئے انہیں آبادی سے دور منتقل کیا جائے۔ کسی بھی ریاست میں اس طرح کے اہم اور حساس ادارے شہر کے مضافات میں قائم ہیں۔ اسی دوران ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ ریاستی حکومت کی نمائندگی کی کامیابی مرکزی وزارت دفاع کے رد عمل پر منحصر ہے تاہم حکومت مرکز کو دشواریوں کے بارے میں قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔