شہرحیدرآباد میں عربی و لبنانی کھانوں کے چلن میں بتدریج اضافہ

حیدرآباد ۔ 6 ۔ فروری : ( سیاست نیوز ) : حیدرآباد میں عربی و لبنانی کھانوں کے چلن میں بتدریج اضافہ ہونے لگا ہے اور حیدرآبادی عوام جو کہ بریانی و حلیم کے دلدادہ ہوا کرتے ہیں وہ اب اپنی غذائی ترجیحات میں عربی و لبنانی غذاؤں کو بھی شامل کرنے لگے ہیں ۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں جہاں بریانی کی فروخت کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا وہیں اب عربی غذاؤں کی مخصوص ہوٹلیں تیزی کے ساتھ وجود میں آنے لگی ہیں اور ان ہوٹلوں میں موجود اژدھام سے اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حیدرآبادی مصالحہ دار غذاؤں کے ساتھ ساتھ کم مصالحہ والی عربی غذاؤں کو بھی پسند کرنے لگے ہیں ۔ پرانے شہر کے علاقہ چندرائن گٹہ ، بارکس اور شاہین نگر میں جہاں عربی ریسٹورنٹ کھلی ہیں وہ اب نئے شہر کا بھی رخ کرنے لگی ہیں ۔ عربی غذاؤں کے یہ ریسٹورنٹ اب جوبلی ہلز ، بنجارہ ہلز ، مہدی پٹنم ، ٹولی چوکی بھی پہنچ چکے ہیں اور ان علاقوں میں بھی عربی و لبنانی غذاؤں کی مانگ میں زبردست اضافہ ہورہا ہے ۔ شہر میں تیزی سے وجود میں آرہے عربی کھانوں کے ہوٹل ہی نہیں بلکہ تقاریب میں بھی اب عربی و لبنانی غذا تیار کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔ عموما ان ہوٹلوں میں لوگ صرف کبثہ یا مندی کے لیے جاتے ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو اس بات سے واقفیت ہے کہ ان ہوٹلوں میں دیگر عربی غذائیں جیسے متبل ، خبز ، پورمہ و دیگر عربی طرز کے تیار کردہ اشیاء بھی دستیاب ہونے لگے ہیں ۔ عربی غذاؤں کی ان ہوٹلوں میں اکثر نوجوانوں کے ہجوم دیکھے جاسکتے ہیں جن میں اکثر خلیجی ممالک کا دورہ کیے ہوئے ہوتے ہیں ۔ شہر میں پیدا ہونے والے اس غذائی تبدیلی کے رجحان کے متعلق بریانی کی ہوٹل چلانے والے ہوٹل مالکین کا کہنا ہے کہ جس وقت شہر میں چائینیز غذاؤں کو فروغ حاصل ہوا تھا اس وقت بھی یہ کہا گیا تھا کہ اب بریانی کی ہوٹل نہیں چل پائے گی ۔ لیکن آج بھی بریانی کا اپنا ذائقہ ہے جسے نہ صرف حیدرآبادی فراموش کرسکتے ہیں اور نہ ہی حیدرآباد بغرض تفریح و سیاحت پہنچنے والے اس غذا کو چھوڑ سکتے ہیں ۔ علاوہ ازیں حیدرآبادی بریانی کی اپنی منفرد شناخت ہے اسے مٹانا بے انتہا مشکل ہے ۔ ان ہوٹل مالکین کے بموجب دونوں شہروں میں آج بریانی اور چائنیز دونوں بھی موجود ہیں اور دونوں کاروبار بہتر انداز میں چل رہے ہیں ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عربی غذاؤں کو حاصل ہوئے فروغ سے بریانی کی شناخت خطرے میں پڑجائے گی تو یہ خیال درست نہیں ہے چونکہ بریانی کا ذائقہ مکمل طور پر علحدہ ہے

اور کبثہ یا مندی بالکلیہ طور پر علحدہ ہے ۔ عربی ہوٹل چلانے والوں کا احساس ہے کہ عوام جو کہ تیزی سے اپنی صحت کے متعلق فکر مند ہوتے جارہے ہیں وہ عربی غذاؤں کے استعمال کی سمت راغب ہورہے ہیں اور سادہ غذائیں استعمال کررہے ہیں ۔ چونکہ کبثہ یا مندی ثقیل غذا میں شمار ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر ونئے کمار ماہر امراض شکم نے غذائی تبدیلی کے رجحان پر دریافت کرنے پر بتایا کہ رات کیو قت ثقیل و مرغن غذا کا استعمال امراض شکم بالخصوص ایسیڈیٹی ، بدہضمی کے علاوہ موٹاپے کا سبب بنتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ مصالحہ دار غذاؤں کے زیادہ استعمال سے بھی یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے لیکن رات کے وقت ثقیل و مصالحہ دار غذا کا استعمال مضر ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر ونئے کمار نے بتایا کہ حیدرآبادی عوام رات کے وقت بریانی و دیگر مصالحہ دار غذاؤں کے استعمال کے عادی ہوچکے ہیں اسی لیے زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا لیکن صحت کے اصولوں کے اعتبار سے یہ بہتر نہیں ہے ۔ رات کو منعقد ہونے والی تقاریب میں جس انداز کی غذائیں استعمال ہوتی ہیں ان میں مرغن غذاؤں کے ساتھ ساتھ مصالحہ دار غذائیں وغیرہ بھی شامل ہوتی ہیں ۔ اگر ان میں معمولی تبدیلی لائی جاتی ہے تو ایسی صورت میں امراض شکم سے محفوظ رہا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹر ونئے کمار نے مزید بتایا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد کچھ وقت کی نیند اور رات کے کھانے کے بعد تھوڑی چہل قدمی کافی فائدہ بخش ہے ۔ شہر میں تیزی سے پھیل رہے عربی و لبنانی مطعم کے جال سے شہر کی بریانی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ لیکن دکنی ، مغلاائی ، چائنیز کے بعد اب شہر میں عربی و لبنانی غذاؤں کی مانگ میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا ۔۔