شہداء کرام کے فضائل

قاری محمد مبشر احمد رضوی
قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ ’’جو خدا کی راہ میں قتل کئے جائیں انھیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں‘‘۔ دوسرے مقام پر یوں ارشاد ہے کہ ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے، انھیں مردہ ہرگز خیال نہ کرنا، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور روزی پاتے ہیں‘‘۔
حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس آیت مبارکہ کے معنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے جسم میں ہیں، ان کے رہنے کے لئے عرش الہی کے نیچے قندیلیں لگائی گئی ہیں، جنت میں جہاں ان کا دل چاہتا ہے وہ سیر کرتے ہیں اور وہاں کے میوے استعمال کرتے ہیں‘‘۔ (مسلم و مشکوۃ)
سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے شہدائے اسلام کی عظمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’شہید کے لئے اللہ عزل و جل کے نزدیک چھ خوبیاں ہیں (۱) خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اسے بخش دیا جاتا ہے اور روح نکلتے ہی اس کو جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھا دیا جاتا ہے (۲) شہید عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے (۳) اسے جہنم کے عذاب کا خوف نہیں رہتا (۴) اس کے سرپر عزت و وقار کا تاج رکھا جائے گا، جو دنیاوی یاقوت اور دیگر تمام چیزوں سے بہتر ہوگا (۵) اس کے نکاح میں بڑی بڑی آنکھوں والی بہتر (۷۲) حوریں دی جائیں گی (۶) شہید کے عزیز و اقارب میں سے ستر (۷۰) آدمیوں کے لئے اس کی شفاعت قبول کی جائے گی‘‘۔ (ترمذی شریف)
جو لوگ لڑائی میں قتل کئے جاتے ہیں، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک وہ بندۂ مؤمن ہے، جو اپنی جان اور اپنے مال سے اللہ کی راہ میں لڑے اور دشمن سے خوب مقابلہ کرے، یہاں تک کہ قتل کردیا جائے گا۔ یہ وہ شہید ہے، جو صبر اور مشقت کے امتحان میں کامیاب ہوا۔ یہ شہید اللہ تعالی کے عرش کے نیچے خیمۂ خداوندی میں ہوگا۔ انبیاء کرام اس سے صرف درجۂ نبوت میں زیادہ ہوں گے۔