شہادت کی حقیقت ہے فنا ہوکر بقا ہونا

حافظ مطلوب احمد چشتی

اللہ وحدہٗ لاشریک نے جو یہ کائنات تخلیق فرمائی ہے، اس کا انحصار محبت پر ہے۔ اگر محبت کے عنصر کو اس میں سے نکال دیا جائے تو یہ کائنات بے آب و رنگ ہوکر رہ جائے گی اور اس میں سوائے تاریکی کے اور کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’(اے حبیب!) لوگوں سے کہہ دو، اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری (اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی) اتباع کرو‘‘۔
اتباع محبت پر موقوف ہوتی ہے، محبت کے بغیر اتباع اور اتباع کے بغیر محبت ناممکن ہے۔ نواسہ رسول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے نانا جان رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ آپ نے اپنے نانا جان کی تعلیمات پر مکمل عمل کیا اور ان کی اتباع میں اپنی تمام زندگی صرف کردی اور اپنے لہو سے اپنے نانا جان کے دین متین کی آبیاری کرگئے، جس کے لئے انہیں بہتر (۷۲) نفوس کی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا اور خود بھی جام شہادت نوش فرماکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید ہو گئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اللہ کی راہ میں قربان ہوکر شہید ہونے والوں کو مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں اور تم ان کی زندگیوں کا شعور نہیں رکھتے‘‘۔ لغوی اعتبار سے شہادت گواہی دینے اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا نام ہے۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے شہادت پائی۔ شہید فنا ہوکر بقاء حاصل کرتا ہے۔ بقول شاعر:
عبادت کی حقیقت ہے محبت میں فنا ہونا
شہادت کی حقیقت ہے فنا ہوکر بقا ہونا
شہید کو اللہ کی طرف سے سب سے بڑا انعام یہ ملتا ہے کہ بن دیکھے جس ہستی پر وہ اپنی جان نثار کرتا ہے، مرنے سے قبل اس کو اس کے دیدار سے مشرف کردیا جاتا ہے۔ مولانا روم مثنوی شریف میں ایک مقام پر رقم طراز ہیں کہ ’’اگر تو اللہ کے لئے روٹی دے گا تو وہ تجھے بھی اس سے بہتر روٹی عطا کرے گا اور اگر تو اللہ کے لئے اپنی یہ جان پیش کرے گا تو وہ تجھے اس سے بہتر جان عطا کرے گا‘‘۔ میدان کربلا میں نواسۂ رسول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے گھر والے بہت بڑے آزمائشی دَور سے گزرے، لیکن آپ نے صبر و رضا کا دامن نہیں چھوڑا اور ببانگ دہل کلمۂ حق بلند کرتے رہے۔ غیر اسلامی اور شخصی حکومت کو قطعی قبول نہیں کیا۔ آپ نے اسلام کی حقانیت اور دین کی بقاء کے لئے بہتر (۷۲) نفوس کو قربان کردیا، مگر دین محمدی کے روشن چراغ کو بجھنے نہیں دیا۔
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا خون دے کر نسل انسانی کو فنا اور بقاء اور فلسفہ شہادت کے رموز عملاً سمجھا دیا۔ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول پر عمل کرتے ہوئے اپنی جان نثار کردی کہ ’’اللہ کی نا فرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں‘‘۔
حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ جس نے حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے حسین سے عداوت رکھی اس نے مجھ سے عداوت رکھی۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی کا نچوڑ یہ ہے کہ دوستی اور دشمنی صرف اللہ ہی کے لئے ہونی چاہئے۔محرم کی دس تاریخ کو جب دشمنوں نے آپ کو گھیر لیا اور ہر طرف سے تلواروں اور نیزوں کی بارش ہونے لگی تو آپ نے تن تنہا ان کا مقابلہ کیا۔سخت ترین آزمائشی لمحات میں بھی آپ نے نماز کو یاد رکھا اور دوران سجدہ ہی آپ نے دنیا سے پردہ فرمایا۔ اس طرح جاتے جاتے بھی آپ اپنے لہو سے اپنے نانا جان صلی اللہ علیہ وسلم کے دین متین کی آبیاری فرما گئے۔ جب تک دنیا قائم ہے، آپ کی شہادت عظمٰی کو یاد کیا جاتا رہے گا۔