حضرت مولانا قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری
سانحہء کربلا اور یزید کا کردار
تاریخ اسلام شاہد ہے کہ ابتدائے آفزینش ہی سے حق اور باطل ہمیشہ برسرپیکار رہے ہیں۔ یہ دراصل نور و ظلمت اور ایمان و کفر کی قوتوں کے درمیان ایسا تصادم اور ٹکرائو ہے جو ازل سے شروع ہو ا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابد تک کسی نہ کسی شکل میں اس جنگ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ان دونوں مخالف طاقتوں کے مابین نہ کبھی صلح ہوگی اور نہ کبھی اس جنگ کا خاتمہ ہوگا۔ ہاں البتہ حق و باطل کی اس جنگ کے فوجوں‘ کمانڈروں اور میدانوں میں وقتاً فوقتاً تبدیلی ہوتی رہیگی لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ایسے ہر محاذ پر ہر بار حق کو فتحِ مبین اور باطل کو شکستِ مہین ہوئی اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی جس کی شہادت اس قرآنی اعلان سے ہوتی ہے ’’جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلْ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا(بنی اسرائیل۔۸۱)‘‘۔
حضرت آدم علیہ السلام کے عالم وجود میں آتے ہی حق و باطل کی یہ جنگ چھڑ گئی جس میں حضرت آدم علیہ السلام حق کے علم بردار تھے اور آپ کے مقابل باطل کی قوت کا سرغنہ ابلیس لعین تھا۔ نور و ظلمت کے درمیان اس محاذ جنگ پر حضرت آدم علیہ السلام منصور و کامیاب ثابت ہوے اور باطل کی ابلیسی طاقت شکست فاش کی ذلت سے دوچار مردود و مقہور ہوگئی۔ آگے زمانہ بدلا تو اسی جنگ کا میدان بدلتا گیا اور دونوں طرف کے کمانڈر بھی بدلتے گئے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے مد مقابل نمرود نے ‘ پھر حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے سامنے فرعون نے اور حجاز میں سرور عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ ابولہب نے نبرد آزمائی کی جبکہ خلیل اللہ‘ کلیم اللہ اور رسول اللہ علیہم الصلوٰۃ والسلام میں سے ہر ایک صداقت کا پرچم لئے حقانیت رحمانی کی طاقت کے سپہ سالار تھے تو اُن کے خلاف علی الترتیب نمرود‘ فرعون اور ابولہب میں سے ہر ایک باطل کے شیطانی لشکر کے کمانڈر کی حیثیت زورآزمائی پراُترآئے تھے۔ شاعر مشرق نے اسی طرف اشارہ کیا ہے ؎
ستیزہ کاررہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
لیکن ان میں سے ہر معرکہ کا کیا انجام ہوا۔ قرآن و حدیث اور تاریخ و سیرت کے اوراق گواہ ہیں کہ حق و باطل کی اس جنگ میں نور و ظلمت کے اس تصادم میں اور کفر و ایمان کی اس لڑائی میں حق کا بول بالااور باطل کا منہ کالا ہوا۔ ظلمانی طاقتوں نے لاکھ کوشش کی نورِ خدا کو بجھادیں لیکن ؎
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
کچھ عرصہ بعد حق و باطل کی جنگ کا محاذ کربلا کی سرزمین پر منتقل ہوا جہاں پرچم حقانیت کے علمدار اور بہتر(۷۲) نفوس قدسیہ پر مشتمل مختصر حقانی فوج کے سپہ سالار حضرت امام عالیمقام حسین نامدار ہیں اور باطل پرست بیس ہزار اشقیاء کے لشکر جرار کی کمان یزید پلید کے ہاتھوں میں ہے۔ سرزمین کربلا کا ذرہ ذرہ گواہ ہے کہ اس معرکہ حق و باطل میں امام برحق نے اپنے اہلبیت کے ساتھ خود اپنا سرکٹا کر اپنی بے مثال قربانیوں کے ذریعہ دین اسلام کو نئی زندگی عطا فرمادی بقول شاعر ؎
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
یزید کی باطل پرستیاں مٹ گئیں اور وہ چراغ ہدایت کو بجھانے میں ناکام رہا۔ اس کے برخلاف فتح مبین کا سہرا امام حسین رضی اللہ عنہ ہی کے سر رہا اور ان شاء اللہ آپ کا یہ کارنامہ قیامت تک ناقابل فراموش رہے گا۔
چنانچہ دین حق کی خاطر آپ کی قربانیوں اور آپ کے امت پر عظیم احسانات کا تذکرہ اور چرچا آج بھی چہار دان عالم کے کونے کونے میں جاری ہے۔ لیکن چند گوشوں سے آجکل یہ فتنہ پھیلا جارہا ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے نعوذباللہ یزید پلید کے خلاف بغاوت کی تھی اور کربلا میں فساد و خونریزی کے آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پروپگنڈہ بھی کیا جارہا ہے کہ یزید دراصل ایک صالح اور متقی ‘ خلیفہ برحق تھا بلکہ اس کے نام کے ساتھ امیرالمومنین کا لقب اور رضی اللہ عنہ کے الفاظ تک بولے اور لکھے جارہے ہیں۔
اہل علم و تحقیق ہی نہیں بلکہ عقل سلیم رکھنے والا ایک عام شخص بھی اس پر یقین رکھتا ہے کہ کسی واقعہ کے بعد زمانہ قریب میں دستیاب شواہد و حقائق پر مشتمل معتبر مورخین وسیرت نگاروں کی تصانیف ہی مستند اور مسلمہ ہوتی ہیں۔ لیکن ان سب کو بالکلیہ بالائے طاق رکھتے ہوے آج معرکۂ کربلا سے تقریباً چودہ صدیوں بعد اصل واقعات کے عین بر عکس‘ مفروضہ قصوں اور کہانیوں کے ذریعہ حقائق کو توڑ موڑ کر اس طرح پیش کرنا علانیہ کذب بیانی ‘ اقترا پردازی اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا مفسدین و دشمنانِ اہلبیت کے اس مکر و فریب اور کذب و افزا کو بے نقاب کرنا وقت کا تقاضا ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی خود بخود نظر آجائے اور سادہ لوح عوام گمراہ ہونے نہ پائیں۔
آج سے کئی صدی قبل تحریر و مرتب کی ہوئی احادیث و آثار اور تاریخ و سیرت کی ثقہ و مسلمہ کتب یعنی بخاری شریف۔ ہدایہ نہایہ۔ صواعق محرقہ۔ دلائل النبوۃ۔ حاکم۔ شرح عینی۔ کنز العمال‘طبقات ابن سعد کامل بن اثیر‘ اسد الغابہ ‘ تاریخ الخلفاء‘ اصابہ اور شرح عقائد نسفی سے ماخوذ مضامین کا خلاصہ درجِ ذیل کیا جارہا ہے تاکہ حقائق کا پتہ چل جائے۔ حضو ررسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے واضح طور پر پیشین گوئی فرمادی تھی کہ میری امت کی ہلاکت چند بیوقوف لڑکوں کے ہاتھوں سے ہوگی۔ نیز فرمایا کہ پہلا وہ شخص جو میری سنت کو بدلے گاہ وہ بنی امیہ سے ہوگا جس کو یزید کہا جائے گا۔ یہ بھی ارشاد نبوی ہے کہ میری امت کا معاملہ عدل کے ساتھ قائم رہے گا حتیٰ کہ پہلا شخص جو اس کو تباہ کردیگا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جو یزید کہلائے گا۔ مخبر صادق صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ارشاد کی لفظ بہ لفظ تصدیق ہوگئی جبکہ مذکورہ بالا کتب کے بموجب سبط رسول‘ جگر گوشہ علی و بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کہ جن کی طہارت ‘ شرافت اور نجابت کااعلان قرآن پاک قیامت تک کرتا رہے گا اور جن کے فضائل احادیث شریفہ میں ہمیشہ جگمگاتے رہینگے۔ جو نہ صرف جنت کے سردار ہیں بلکہ جن سے محبت دراصل خدا و رسول کو محبوب اور شفاعت و مغفرت کی ضامن ہے۔ مذکورہ کتب سے ثابت ہے کہ یزید شقی و بدبخت ‘ ظالم و جابر‘ فاسق و فاجر‘ شرابی و بدکار‘ بے ادب و بداخلاق‘ بدعتی و فتنہ پرداز‘ سنتوں کو بدلنے والا‘ دین میں رخنہ ڈالنے والا‘ حرمین شریفین کے تقدس کو پامال کرنے والا‘ اہلبیت رسول کی بے حرمتی کرنے والاتھا۔ اس کے علاوہ آلات لہو و لعب کے ساتھ گانا بجانا‘ شکار کھیلنا‘ بے ریش لڑکوں کو رکھنا‘ کتوں کو پالنا‘ سینگوں والے دنبوں‘ ریچھوں اور بندروں کو آپس میں لڑاتے رہنا یزید کے محبوب مشاغل تھے۔ کوئی دن ایسا نہ ہوتا تھا جبکہ وہ شراب سے مخمور نہ رہتا ہو۔
چنانچہ واقدی نے حضرت عبد اللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم نے یزید پر اس وقت خروج کیا جبکہ ہم کو یہ ڈر ہوگیا کہ کہیں یزید کی بداعمالیوں اور بدکاریوں کی وجہ سے ہم پر پتھروں کا عذاب نہ برسنے لگے کیوں کہ یہ شخص مائوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ نکاح جائز قراردیتا‘ شراب نوشی کرتا اور نمازیں ترک کردیتا تھا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تو یزید اس قدر بے لگام ہوگیا کہ زنا‘ لواطت‘ حرام کاری‘ بھائی بہن کے درمیان نکاح‘ سود کا لین دین اور شراب نوشی وغیرہ عوام میں تک علانیہ رائج ہوگئے لوگوں میں نمازوں کی پابندی اُٹھ گئی۔
مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر
صبر و عزیمت پیغمبران کرام علیہم السلام کی سنت
سکھ دکھ، رنج و شادمانی، صحت و بیماری اور راحت و تکلیف انسانی زندگی کے دو متضاد پہلو اور لازمی اجزاء ہیں۔ کوئی فرد بشر مصائب و آلام، تکالیف اور حوادث زمانہ سے محفوظ نہیں، زندگی کے کسی نہ کسی موڑپر انسان کو ان سے ضرور سابقہ پڑتا ہے۔ کسی کو ان سے مفر نہیں، اس لئے کہ یہ دنیا اجر و ثواب کا مقام نہیں، بلکہ صرف آزمائش و ابتلاء کی جگہ ہے۔ انسان کی تخلیق کی غرض و غایت ہی اس کی آزمائش اور امتحان ہے کہ وہ اس دنیائے فانی میں خوشحالی و فراوانی اور تنگی و مفلسی میں اللہ تعالی کے بتائے ہوئے راستے پر قائم رہتا ہے یا نہیں۔ ارشاد الہی ہے: ’’وہی ہے جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا، تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے‘‘۔ (سورۃ الملک۔۲)
صبر اور شکر دو عظیم صفات ہیں، دونوں بھی عبدیت اور بندگی کی علامتیں ہیں۔ جب اللہ سبحانہ و تعالی کسی بندے کو انعامات سے سرفراز فرماتا ہے، بیوی بچے، دھن دولت، عزت و شہرت، اقتدار و حشمت سے نوازتا ہے تو وہ درحقیقت اللہ تعالی کی جانب سے آزمائش اس معنی میں ہے کہ وہ خدا کی نعمتوں پر شکر گزار ہوتا ہے یا ان نعمتوں میں کھوکر اللہ تعالی سے غافل ہو جاتا ہے۔ اگر وہ شکر گزاری کرتا ہے تو مزید نعمتوں سے سرفراز کیا جاتا ہے اور ناشکری کرتا ہے تو اس کے لئے اللہ تعالی کے پاس دردناک عذاب تیار ہے۔ ارشاد الہی ہے: ’’اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر کروگے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے‘‘۔ (سورہ ابراہیم۔۷)
اسی طرح دوسرے بندوں کو اللہ تعالی مال و دولت سے محروم کرکے آزماتا ہے، فقر و فاقہ میں مبتلاء کرتا ہے، جسمانی بیماریوں میں گرفتار کردیتا ہے، کبھی مالدار کو تنگدست و مفلس بنا دیتا ہے اور مختلف آزمائشوں سے دو چار کرتا ہے۔ اگر وہ اس میں صبر کے دامن کو تھامے رہتے ہیں تو اللہ تعالی ایسے محبوب و مقرب بندوں کو اپنی خصوصی معیت سے سرفراز فرماتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’یقیناً اللہ سبحانہ و تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
اللہ تعالی خیر و شر، نیکی اور برائی، نعمت اور زحمت دونوں طریقوں سے آزماتا ہے۔ لوگ صرف تکلیف و مصیبت ہی کو آزمائش سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’ہم تم کو برائی اور بھلائی میں آزمائش کے لئے مبتلاء کرتے ہیں اور تم ہماری ہی طرف پلٹائے جاؤ گے‘‘۔ (سورۃ الانبیاء۔۳۵)
اللہ تعالی کی آزمائش مختلف نوعیت کی ہوتی ہے۔ ارشاد ہے: ’’اور ہم ضرور بہ ضرور تم کو آزمائیں گے، کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادیں جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم بھی اللہ ہی کے لئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں، جن پر ان کے رب کی طرف سے پے در پے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۱۵۵تا۱۵۷)
ارشاد فرمایا: ’’(اے مسلمانو!) تمھیں ضرور بہ ضرور تمہارے اموال اور تمہاری جانوں میں آزمایا جائے گا اور تمھیں بہرصورت ان لوگوں نے جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سے اذیت ناک (طعنے) سنے ہوں گے اور اگر تم صبر کرتے ہو اور تقویٰ اختیار کئے رکھو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔ (سورہ آل عمران۔۱۸۶)
رنج و غم، تکلیف و اذیت، دکھ و بیماری جزو زندگی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’ہم نے انسان کو مشقت میں (مبتلا رہنے والا) پیدا کیا‘‘ (سورۃ البلد۔۴) اور جب مؤمن کو یقین کامل ہو جاتا ہے کہ انسان کو اس دنیا میں جو بھی سکھ دکھ، اور رنج و غم پہنچتا ہے، وہ اس کی تخلیق سے بہت پہلے ہی لکھا جاچکا ہے، جو ہر حال میں واقع ہونے والا ہے، خدا کی تقدیر چوکنے والی نہیں ہے تو اس کے لئے یہ زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ وہ خوشی میں نہ اتراتا ہے اور نہ ہی غم میں رنجیدہ ہوتا ہے۔ اسی فکر کو مؤمنین کے دل و دماغ میں راسخ کرنے کے لئے قرآن اعلان کرتا ہے: ’’کوئی بھی مصیبت نہ تو زمین میں پہنچتی ہے اور نہ ہی تمہاری جانوں میں، مگر یہ کہ وہ ایک کتاب (لوح محفوظ) میں قبل اس کے کہ ہم ان کو پیدا کریں موجود و مکتوب ہے۔ بے شک یہ اللہ تعالی پر بہت ہی آسان ہے، تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس چیز پر نہ اتراؤ جو اس نے تمھیں عطا کی ہے اور اللہ کسی تکبر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (سورۃ الحدید۔۲۲،۲۳)
جس قدر ایمان میں پختگی ہوتی ہے، اسی قدر امتحان و آزمائش میں شدت ہوتی ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام شدید ترین آزمائشوں سے گزرے۔ قوموں کی نفرت و عداوت، ظلم و زیادتیوں کو برداشت کئے، مختلف صبر آزما حالات سے دو چار ہوئے۔ وہ ہر امتحان میں کھرے اترے، صبر و استقامت کے دامن کو تھامے رہے اور ساری دنیا کے لئے مشکل حالات میں ثابت قدم رہنے کی بہترین مثال قائم کرگئے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے صبر کی تلقین کی: ’’اور (اے حبیب مکرمﷺ) صبر کیجئے اور آپ کا صبر کرنا اللہ ہی کے ساتھ ہے اور آپ ان (کی سرکشی) پر رنجیدہ خاطر نہ ہوں اور آپ ان کی فریب کاریوں سے (اپنے کشادہ سینہ میں) تنگی (بھی) محسوس نہ کیا کریں۔ بے شک اللہ تعالی ان لوگوں کو اپنی معیت (خاص) سے نوازتا ہے، جو متقی ہیں اور وہ جو احسان کرنے والے ہیں‘‘۔ (سورۃ النحل۔۱۲۸)
ابولہب کی بیوی ام جمیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی ہونے کے باوجود درختوں کی ٹہنیاں لاتی اور آپﷺ کے راستے میں ڈال دیتی۔ جب آپﷺ اندھیرے میں تشریف لاتے تو آپ کو تکلیف پہنچتی۔ خود ابولہب آپﷺ کے مکان کے دروازے پر اور راستے میں گندگی اور غلاظت پھینک دیتا۔ ایک دن آپ کے دوسرے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھ کر ملامت کی اور اس کی لائی ہوئی غلاظت اسی کے سرپر انڈیل دی۔ ابولہب نے دوسروں کو اجرت دے کر اس کام کو جاری رکھنے پر مامور کیا۔ بارہا رؤسائے قریش کی شہہ پر آوارہ مزاج لڑکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں پتھر مارتے، آپﷺ کا مذاق اڑاتے اور طرح طرح سے تنگ کرتے۔ ایسی صورت میں کئی مرتبہ آپﷺ ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گئے اور یہ شریف دشمن لڑکوں کو اپنے گھر سے دفع کردیتا۔ ابن جوزی کے مطابق فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ کا یہ ارشاد کہ ’’جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو، اسے امان ہے‘‘ اسی حسن سلوک پر سرفرازی تھی۔
الغرض صبر اور شکر پیغمبرانہ اوصاف ہیں۔ خوشحالی میں شکر گزاری ہونی چاہئے اور آزمائش میں صبر و تحمل اور عزم و استقلال پر عمل پیرا ہونا چاہئے، جب کہ یہ دونوں انسانی زندگی کے جزء لاینفک ہیں۔ بطور خاص آزمائشوں اور صبر آزما لمحات میں ثابت قدم رہنا ہی ایمان کامل کی علامت ہے اور اس کا پھل نہایت ہی حسین ہے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بار عظیم کو لے کر اٹھے تو ایک شخص بھی آپ کے ہمراہ نہ تھا، مگر آپﷺ کو اپنی منزل کی طرف بڑھنے میں قطعاً کوئی تذبذب نہ ہوا۔ زندگی مبارک میں کئی مواقع ایسے آئے، جب آپﷺ نے آہنی اور غیر متزلزل عزم و استقلال کا مظاہرہ فرمایا۔ ایک موقع پر بعض صحابہ کرام نے دشمنوں کی عداوت اور ایذا رسانی سے تنگ آکر آپﷺ سے دعاء کی درخواست کی تو آپﷺ نے جواب میں فرمایا ’’تم سے پہلے جو لوگ گزرچکے ہیں، ان کے جسموں پر آہنی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں اور کھال کو جسم سے الگ کردیا جاتا تھا، مگر وہ دین سے برگشتہ نہ ہوئے۔ بخدا دین اسلام اپنے منتہائے کمال کو پہنچ کر رہے گا، تاآنکہ صنعاء سے حضر موت تک جانے والا مسافر خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گا‘‘۔ (بخاری و ابوداؤد)
علامہ اعجاز فرخ
حسین شاہِ شہیداں سلام ہو تم پر
خالق ازلی جب ساری کائنات کو خلق کرچکا تب احسن تقویم میں انسان کو خلق کیا۔ کسی وجود کو بے مقصد نہیں بنایا کہ بے مقصد تخلیق فعل عبث قرار پاتی، یہ اور بات ہے کہ انسان ابھی جستجو کے مدارج میں ہے، اس لئے وہ مخلوق جو اس کی نظر میں آچکی ہیں، اس کی جبلت پر غور کر رہا ہے۔ کبھی کبھی اس کی غرض و غایت تخلیق کا ایک پہلو نگاہ میں آجاتا ہے، لیکن ہنوز ابھی کئی حجابات اس کی نگاہ میں حائل ہیں کہ جہاں وہ شے کی حقیقت تک نہیں پہنچ پا رہا ہے۔ تمام مخلوق کو جبلت سے نوازا، لیکن انسان جس کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے کر سر بلند کیا، اسے عقل سے سرفراز کیا، تفکر کی نعمت عطا کی، تخیل کی دولت دی، حکمت سے مالا مال کیا، حصول علم کی جستجو کے بعد اس نے کائنات کے رازہائے سربستہ کو کھولنے کے لئے جوہر علم سے آراستگی کے سامان فراہم کئے اور اس کے بعد مخاطب ہوکر کہا کہ یہ لوگ کیوں فکر نہیں کرتے جو کچھ کہ زمینوں اور آسمانوں میں ہے۔
اسلام وہ واحد مذہب ہے، جس نے حصول علم کو ہر مرد و زن کے لئے فریضہ قرار دیا۔ اس میں جنس کی قید نہیں رکھی اور نہ حدود کا تعین کیا کہ انسان کہاں سے کہاں تک علم حاصل کرے اور کہاں جاکر رک جائے، لیکن ہر دور میں ہدایت الہی کو جاری و ساری کیا کہ انسان صراط مستقیم سے نہ ہٹ جائے اور جو کچھ علم اس نے حاصل کیا ہے، وہ شرافت نفس کے تئیں نافع قرار پائے، یعنی بنی نوع انسان اور دیگر مخلوق کے لئے نفع بخشنے والا ہو۔ اس امر کا اظہار بھی بے جا نہیں ہے کہ علم صرف علم ہوتا ہے، اس کے استعمال کا مدار و قرار نفس پر ہے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ انسان جو بہت ساری اشیاء کا موجد کہلاتا ہے، دراصل وہ کسی شے کا موجد نہیں ہے۔ تمام اشیاء تو خالق ہی نے ایجاد کی ہیں، انسان نے اپنے علم سے ایک عنصر کو دوسرے عنصر سے ترکیب دے کر اس سے استفادہ کا طریقہ دریافت کیا ہے، ورنہ شے اپنی پوری ماہیت اور اثر پزیری کے ساتھ تخلیق کائنات کے ساتھ ہی وجود پزیر تھی۔ یہ اور بات ہے کہ کائنات کو ایک مرتبہ خلق کرنے کے بعد ذات باری نے تخلیق کو بند نہیں کیا اور ہر آن خلق جدید جاری ہے۔ ہر آن لہو کی ایک ایک بوند لسان استعداد سے حضور باری تعالی میں طلبگار ہے اور ہر فنا ہونے والے خلیوں کے ساتھ پھر نئے خلیوں کی تخلیق ہو رہی ہے۔ اسی لئے شاید علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
ان تمام صورتوں کے پیش نظر یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ انسان کو نوازی گئی تمام نعمتوں میں سب سے ارفع و اعلی نعمت ہدایت ہے۔ سلسلۂ انبیاء تو ہدایتوں کی ارفع و اعلی منزلیں ہیں ہی، لیکن خود انسان کے وجود میں ذات واجب نے دو جواہر ایسے ودیعت کئے ہیں، جو ہر آن ہدایت کو قبول کرکے وجود انسانی پہ اپنا اثر و نفوذ رکھتے ہیں۔ اس میں سے ایک جوہر عقل ہے اور دوسرا ضمیر۔ عقل ایک نقطۂ تمیز ہے، جو نیک و بد، حق و باطل، نور و ظلمت، عدل و ظلم، حسن و قبح میں تفریق کرتا ہے اور انسان کو مائل بہ خیر کرنے کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔ جب کہ ضمیر انسان کو غلطیوں پر ٹوکنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ اس تمثیل سے یقیناً معقول محسوس سے قریب تر ہو جائے گا کہ لوہے کا عنصر ایجاد قدرت ہے، آگ اسی کی پیدا کی ہوئی ہے، آگ میں لوہے کی نرم ہوجانے والی صلاحیت پروردگار نے بخشی ہے۔ ہاتھ اور اس میں صناعی کا ہنر بھی اسی کا ودیعت کردہ ہے۔ لیکن ہدایت یہ بتلاتی ہے کہ نفس انسانی محترم ہے، خنجر کسی کی گردن پر نہ چلے۔ ہدایت خیر و شر کے درمیان ایک صراط ہے اور صراط حق پر گامزن ہونا رضائے معبود کی منزل سے قریب کردیتا ہے۔
انسان اپنی زندگی کے تجربات و حوادث کے ضمن میں اپنے حواس خمسہ کو بروئے کار لاکر میزان عقل پر جن نتائج کو اخذ کرتا ہے، یہ آہستہ آہستہ اس کے اندر جگہ پیدا کرلیتے ہیں اور پہلو بہ پہلو جو ترسیم تشکیل پاتی ہے، وہ شعور کہلاتی ہے۔ کبھی کبھی کچھ کیفیات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ابھی شعور میں پختگی نہ آئی ہو اور وہ لاشعور کے نہاں خانوں میں تہہ نشین ہوں۔
واقعہ کربلا ایک ایسا دلدوز سانحہ ہے کہ جس نے انسانیت کو لرزہ بہ اندام کردیا۔ اگرچہ کہ سطح زمین پر حصول اقتدار، حسد و رقابت نے بے تحاشہ خونریزی کی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، لیکن ایک لمحۂ معین جس کا انتظار شاید دنیا کو ہے، اس وقت تک جاری بھی رہے گا، لیکن اس کے باوجود کربلا کی انفرادیت نہ صرف باقی و برقرار ہے، بلکہ وقت کی گرد نے جہاں تاریخ کے اوراق کو اپنی تہہ در تہہ پرت میں دفن کردیا، وہی وقت ۱۰؍ محرم سنہ ۶۱ ہجری کو یوں تھم گیا کہ اس تک بدلتے ہوئے زمان اور وقت کی رسائی نہ ہو سکی۔ اس کے بے شمار وجوہات میں سب سے ارفع و اعلی وجہ خود قرآن مجید میں سورہ آل عمران کی ۱۶۹ ویں آیت ہے، جس میں ارشاد ہوا کہ ’’وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں قتل کردیئے جاتے ہیں انھیں مردہ گمان بھی نہ کرنا، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب سے رزق پا رہے ہیں‘‘۔ جو لوگ رموز و اسرار قرآنی سے واقف ہیں، وہ اس رمز سے آشنا بھی ہیں کہ جہاں حیات مسلسل ہے وہاں نسبتیں بھی حیات پاتی ہیں۔ اسی لئے اس واقعہ کی حیات اور تابندگی ایک درخشاں حقیقت ہے۔ میں بلامعذرت اپنے گزشتہ مضمون سے ایک جملہ مستعار لے کر یہ کہنے کے موقف میں ہوں کہ ظلم صرف شرعاً قبیح نہیں ہے، بلکہ عقلاً بھی قبیح ہے۔ بنی نوع انسان خواہ وہ کسی مکتب فکر، مذہب و ملت یا ملک و قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو، ظلم کو قبیح جانتا ہے اور آج سارا عالم انسانیت مسلسل فریاد کناں ہے کہ انسانیت کو ظلم سے نجات دلائی جائے۔ جب کبھی ظلم، جبر، استبداد، جور و جفا، ستم پیشہ اقتدار نے خبط حکمرانی میں انسانوں کے لب مہربند کرنے کی کوشش کی کہ ان کے خلاف کوئی آواز نہ ابھرے اس وقت ساری انسانیت نے اس جور و ظلم اور استبداد سے نجات حاصل کرنے کے لئے کربلا کو اپنا محور قرار دیا، جس کے مرکز امام حسین بن علی علیہ السلام تھے۔
ہر کیفیت اپنے اظہار کے لئے وسیلہ ابلاغ چاہتی ہے۔ یہ رنگ کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے، آہنگ کی صورت میں بھی۔ چنانچہ جب شعور انسان کربلا کو مرکز بناکر خراج آمادہ ہوا یا احتجاج بلند تو اس نے استعاروں کی صورت میں کربلا سے نئی طاقت حاصل کی۔ چنانچہ یہ بات بلاجھجک کہی جاسکتی ہے کہ واقعۂ کربلا کے بعد بہت سے الفاظ نے استعارے کی صورت اختیار کرلی۔ رمز و اشاریت نے ان کے معنی و مفہوم کو متناہی سے لامتناہی کی جہت دے دی۔ چنانچہ صبح، رن، شام، شفق، چراغ، تاریکی، تیر، سناں، گرز، تسلیم، رضا، سجدہ، تنہائی، زندان، اسیری، قفس، محبس، ریت، پیاس، دریا، موج، پانی، مشکیزہ، بے دستی، ستم، گردن، گلوئے خشک، خنجر، آنسو، ردا، بے ردائی، کوچۂ قاتل، بازار، دربار جیسے الفاظ جب استعاروں کی صورت اختیار کرگئے تو اپنے سیاق و سباق سے عالمی منظر نامے کو نئی جہات سے روشناس کروایا۔ انسان چوں کہ اپنی حیات شاعرہ کی وجہ سے ادراک اور شعور کا حامل ہے، اس لئے فن شاعری میں کربلائی استعاروں نے نہایت خوش اسلوبی سے یہ فرائض انجام دیئے۔ ادب دوست یقیناً اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اصناف سخن میں مرثیہ اور قصیدہ اگرچہ کہ کربلا سے علحدہ بھی اپنی ایک حیثیت کے حامل تھے، لیکن واقعہ کربلا کے بعد سلام اور مرثیہ کا شمار کربلائی اصناف سخن میں ہوا۔ قصیدہ چوں کہ قصد سے مشتق ہے، اس میں آمادگی ہی مدح پر ہے۔ چنانچہ حسان بن ثابت کا قصیدہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ثابت ہے تو ابن ابی الحدید کا قصیدہ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام اور فرزدق کا قصیدہ امام زین العابدین کے لئے عربی ادب کے مشہور قصائد میں ہے۔