شہادتِ امام حسین ؓکی شہرت

 

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض دو طریقوں سے عام ہوا۔ مشابہت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض اور روحانیت مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فیض۔ ایک فیض کے عام ہونے کا ذریعہ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ بنے اور دوسرے فیض کے عام ہونے کا اعزاز حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے حصہ میں آیا۔ فیض کے یہ دونوں دھارے حضرت امام حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی ذات میں آکر مل گئے، کیونکہ حضرت امام حسین کو ذبح عظیم بنانا مقصود تھا؟۔ ذبح اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ملا، لیکن ذبح امام حسین رضی اللہ عنہ کے لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم خواب میں نہیں، بلکہ عالم بیداری میں وحی خداوندی کے ذریعہ مطلع کیا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عالم بیداری میں حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے اطلاع دی کہ ’’یارسول اللہ! عراق کی سرزمین پر آپ کے شہزادے حسین کو قتل کردیا جائے گا‘‘ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طلب کرنے پر حضرت جبرئیل امین نے آپ کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی مٹی بھی لاکر دی کہ یہ سرزمین کربلا کی مٹی ہے، جہاں علی کے نور نظر اور فاطمہ کے لخت جگر کا خون ناحق بہایا جائے گا۔ وہ حسین جو دوش پیغمبر کے سوار تھے۔ وہ حسین جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آغوش رحمت میں پروان چڑھے تھے۔ وہ حسین جو نماز کی حالت میں پشت اقدس پر سوار ہوگئے تھے تو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے سجدہ کو طول دے دیا تھا کہ کہیں گرکر شہزادے کو چوٹ نہ آجائے۔ وہ حسین جو یتیموں کے آقا اور غریبوں کے مولا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبتوں اور شفقتوں کا محور تھے۔ وہ حسین جن کے منہ میں رسول آخر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زبان اقدس دے دی اور اپنے لعاب دہن کو لب حسین سے مس کیا کہ ایک دن میدان کربلا میں ان نازک ہونٹوں پر تشنگی کی فصلوں کو لہلہانا ہے۔ اسی حوالے سے چند روایات درج ذیل ہیں۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین پر قتل کردیا جائے گا۔ میں نے کہا جبرئیل! مجھے اس زمین کی مٹی لاکر دکھادو، جہاں حسین کو قتل کیا جائے گا۔ پس جبرئیل گئے اور مٹی لاکر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے‘‘۔ (البدایہ والنہایہ، کنز العمال)
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کردیا جائے گا‘‘ (المعجم الکبیر) حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے، جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ یہ بھی شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پاکر قلب اطہر صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا گزری ہوگی، اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے۔
اسی طرح ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے۔ میں نے پوچھا ’’یارسول اللہ! آج کیا بات ہے کہ چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟‘‘۔ فرمایا ’’مجھے ابھی ابھی جبرئیل امین نے خبر دی ہے کہ آپ کی امت آپ کے اس بیٹے حسین کو اس سرزمین پر قتل کردے گی، جس کو کربلا کہا جاتا ہے‘‘۔ (المعجم الکبیر)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کردیا جائے گا‘‘ (مجمع۔ بحوالہ طبرانی فی الاوسط) غیب کی خبریں بتانے والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا، بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ سنہ ۶۰ ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر دعاء فرمایا کرتے ’’اے اللہ! میں ساٹھ ہجری کی ابتداء اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘۔ (الصواعق محرقہ)
حضرت یحییٰ حضرمی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو دامادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے ابوعبد اللہ! فرات کے کنارے صبر کرنا‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’یہ کیا؟‘‘۔ حضرت علی نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’مجھے جبرئیل علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ حسین فرات کے کنارے قتل ہوں گے اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی‘‘۔ (الخصائص الکبری)
حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین کی جگہ پر آئے تو آپ نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا، جس پر زمین و آسمان روئیں گے‘‘ ۔(الخصائص الکبری، سر الشہادتین)
گویا حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ نے اپنے بیٹے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوں گے اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہو چکا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کردیا جائے گا اور یہ کہ جبرئیل علیہ السلام نے کربلا کی مٹی لاکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے ام سلمہ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہو گیا ہے‘‘۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس مٹی کو ایک شیشی میں رکھ دیا تھا اور وہ ہر روز اس مٹی کو دیکھا کرتیں اور فرماتیں ’’اے مٹی! جس دن تو خون ہو جائے گی، وہ دن عظیم ہوگا‘‘۔ (الخصائص الکبری، سر الشہادتین)
شہادت حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی عظمت کا یہ پہلو بطور خاص اہمیت رکھتا ہے کہ آپ کی شہادت کے تذکرے عہد رسالت میں ہی ہونے لگے تھے۔ کسی واقعہ کا وقوع سے قبل شہرت اختیار کرلینا، اس کے غیر معمولی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔