ندی پر ایک بکری چرتے چرتے آنکلی ۔ جب وہاں ٹھہر کر ادھر اُدھر دیکھا تو پاس ہی ایک گائے کو کھڑے پایا ۔ بکری نے اسے جھک کر پہلے سلام کیا پھر نہایت اچھے طریقے سے اس کے ساتھ بات چیت شروع کی ’’ بڑی بی ؔ آپ کے مزاج کیسے ہیں؟ ‘‘ گائے بولی ’’ میرا مزاج اچھا ہی ہے اپنی زندگی بری بھلی گزر رہی ہے۔
میری زندگی تو رکھ میں ہے ۔ بہت مشکل حالات ہیں ۔ اپنا نصیب ہی برا ہے کسی کو کیا کہا جاسکتا ہے ۔دودھ کم دوں تو شکایت کرتا ہے ۔ اگر میں کمزور ہوجاؤں تو بیج دیتا ہے ۔ نیکی کے بدلے یہ برائی کرتا ہے میں تو بس اللہ ہی سے فریاد کرتی ہوں ۔ بکری نے یہ سارا قصہ سن کر کہا’’ یہ شکایت اور شکوہ کرنا اچھی بات نہیں ‘ سچی بات گرچہ کڑوی لگتی ہے مگر میں سچی بات ہی کہوں گی ۔ یہ سبز میدان اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ‘ یہ ہری گھاس اور سایا ‘ ہمیں خوشیاں کہاں مل سکتی ہیں ۔ یہ تمام مزے ‘ آرام اور نعمتیں آدمی ہی کی وجہ سے ہیں ۔ اس انسان کا ہم پر بڑا احسان ہے ‘ ہمیں اس کی شکایت کرنا اچھا نہیں لگتا ۔ اگر آرام کی قدر جانو تو آدمی کا گِلہ کبھی نہ کرو۔ گائے بکری کی یہ باتیں سن کر شرماسی گئی اور اپنی باتوں پر پچھتانے لگی ۔ گائے نے بکری کی باتوں پر غور کیا اور کہنے لگی ’’ اگرچہ بکری ہے تو چھوٹا سا جانور مگر اس کی بات اور ذات بڑی معلوم ہوتی ہے ‘‘ ۔