شمس المفسرین حضرت سید محمد عمر حسینی قادری خلیقؒ

مرسلہ : عبداﷲ محمد عبداﷲ
حضرت کا نام نامی ’’ سید محمد عمرالحسینی ‘‘ المعروف سیدالشیوخ ہے ۔ آپ کا سلسلہ نسب (۴۱) واسطوں سے سیدالشہدا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے ۔ والد کا نام حضرت سید محمد بادشاہ حسینی قادری ؒ اور حضرت ؒ کے مورثِ اعلیٰ حضرت سید محی الدین الحسینی ؓ نے شہنشاہ اورنگ زیب کے آخر عہد میں بغداد شریف سے دیارِ ہند کا رخ فرمایا ۔
حضرت سید الشیوخ علیہ الرحمہ کی ولادت شہر حیدرآباد دکن کے قدیم محلہ قاضی پورہ میں بتاریخ ۱۷ ؍ ربیع الثانی ۱۲۸۲ھ میں ہوئی ۔ حضرت سید الشیوخ علیہ الرحمہ چار سال کے بھی نہ ہونے پائے تھے کہ سایہ پدری سر سے اٹھ گیا۔ چنانچہ چار سال کی عمر میں اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ حج اور شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں ایک سال تک حاضری دی ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی والدہ محترمہ کی آغوش و شفقت میں ہوئی ۔ بعدازاں مدرسہ محبوبیہ میں شریک کئے گئے۔ آپ ابھی بارہ سال کی عمر کو بھی نہ پہنچنے پائے تھے کہ سایہ مادری بھی اٹھ گیا ۔ آپ ہی کے برادر محترم و معظم سیدی حضرت سیدنا خواجہ محمد صدیق محبوب اللہ قدس سرہ العزیز جن کے زیرہدایت و نگرانی میں آپ علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل فرمائے ۔ قراۃ سبعہ و عشرہ میں استاد القراء حضرت قاری سید محمد تونسی کو تمام قرآن شریف سنا کر سندیں حاصل کیں ۔ حضرت سید غلام غوث شطاری ؒ اور مولانا سید محمد علی شطاری ؒ آپ کے ہم درس تھے ۔ حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ آپ نے علوم ظاہری ، مقصولات ، منقولات ، نعت و ادب ، معانی و بیان ، فقہ ، تفسیر و حدیث ، منطق ، فلسفہ کلام میں ایسا تبحر پیدا کیا کہ سر آمد علما روزگار بن گئے۔
آپ نہایت سیدھا سادھا لباس زیب تن فرماتے تھے ۔ جمعہ کے روز جب مکہ مسجد تشریف لے جاتے یا وعظ فرماتے وقت اتباع سنت نبوی ؐ میں سر پر سفید عمامہ باندھتے ۔حضرت سیدالشیوخ علیہ الرحمہ کو اپنے برادر محترم خواجہ دکن حضرت سید شاہ محمد صدیق حسینی خلق المعروف سیدی حضرت خواجہ محبوب اللہ قدس سرہ العزیز سے مختلف طریقوں اور سلسلوں سے بیعت و خلافت حاصل تھی ۔ آپ پابندی شریعت و اتباع سنت نبوی ؐ کا بہت خاص طور پر اہتمام فرماتے کوئی بات خلافِ شریعت اور کوئی کام خلافِ سنت ہو تو آپ اس سے اجتناب فرماتے۔ قرآن کریم اور حدیث شریف کا بکثرت ورد فرماتے ۔
مکہ مسجد میں بعد نماز جمعہ قرآن شریف کا ایک رکوع تلاوت فرما کر اس کی تفسیر بیان فرماتے ۔ اسی طرح پہلی تاریخ سے بارہویں ربیع المنور اور پہلی ربیع الثانی سے گیارہویں شریف اور پہلی محرم سے دسویں محرم تک اپنے مکان قاضی پورہ میں وعظ فرماتے ۔

حضرت سیدالشیوخ علیہ الرحمہ کا اپنے ہمعصر اکابر و شیوخ علماء میں ایک خاص مقام تھا۔ نہ صرف دکن بلکہ ہندوستان اور بیرون ہند کے اکابر و علماء و شیوخ طریقت آپ کا بہتر احترام فرماتے تھے ۔حضرت سید الشیوخ علیہ الرحمہ اپنے وقت کے ایک جید عالم تھے ۔ آپ نے کئی ممالک کا دورہ فرمایا اور لوگ آپ کے مواعظ سے مستفید ہوتے رہے ۔ بریلی کے مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم اہلسنت جس کے بانی حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ ہیں ۔ حضرت سید الشیوخ علیہ الرحمہ کو اپنے اس عظیم دینی درسگاہ کے سالانہ جلسہ میں تشریف لانے کی دعوت دی ۔روزانہ نماز فجر مسجد یٰسین اندرون علی آباد میں ادا فرماتے۔ حلقہ ذکر ہوتا اور عربی تعلیم دی جاتی تھی ۔ فقہ احناف ، فقہ حنابلہ و شوافعہ کی تعلیم کے لئے ایک جماعت تھی۔ علم الفرائض اور تقسیم ترکہ جیسے اہم مسائل کے لئے ایک نہایت عام فہم سلیس و منظوم رسالہ ’’فرائض قادری ‘‘ کے نام سے تالیف فرمایا ۔ فقہ حنابلہ پر بھی ایک رسالہ تالیف فرمایا ۔اصولِ فقہ پر بھی خاص توجہ دی جاتی تھی اور بعض اصحاب کو استمداد کے موافق قوت القلوب مصنفہ ابو طالب مکی ؒ احیاء العلوم ، الدین مصنفہ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ ، فصوص الحکم مصنفہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ؒ وغیرہ کی تعلیم دیتے تھے ۔ حضرت سید الشیوخ علیہ الرحمہ نے شاطبیہ کا ترجمہ اردو میں نظم فرمایا ۔ بہت سے لوگ اس سے مستفیض ہوئے ۔ آپ کا مطالعہ نہایت وسیع تھا اور تصنیف و تالیف کا کام برابر جاری رہتا ۔ آپ نے چودہ پاروں تک تفسیر قرآن بیان فرما چکے تھے ۔ لوگوں کے اصرار پر ، تفسیر قادری کے نام سے ماہوار رسالہ کی شکل میں شائع ہونے لگا۔ آپ کی مشہور کتابیں جو طبع ہوئیں وہ رہبر طریقت ’’فرائض قادری ‘‘ اور تفسیر قادری تحفہ ناروقیہ ہیں ۔

اپنی مصروفیتوں کے باوجود آپ کے وقت میں کچھ ایسی برکت تھی کہ لوگوں کے خطوط ، عرضیوں ، تعبیر خواب کے جوابات کے علاوہ دور دور سے آئے ہوئے استفتاء کے جوابات نہایت بروقت اور مدلل ادا فرماتے ۔خدمت خلق کا جذبہ آپ میں بدرجہ اتم تھا۔ ۱۹۰۸ء میں جب حیدرآباد میں طغیانی آئی، آپ ؒ نے بلالحاظ و ملت لوگوں کی مدد کی ۔
۱۳۲۹ھ کے اواخر اور ۱۳۳۰ھ کے اوائل میں حیدرآباد میں پہلی مرتبہ نہایت شدید قسم کا طاعون پھیل گیا ۔ موت کی تعداد روزانہ ۴۰۰ سے ۵۰۰ متجاوز ہوگئی ۔ تجہیز و تکفین کے لئے سخت دشواریاں پیش آنے لگیں ۔ نہ غسال ملتے نہ گورکن ۔ اعزا و اقربا میت کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے تھے ۔ لوگ مریضوں اور میتوں کو چھوڑ چھوڑ کر بھاگنے لگے نوبت یہاں تک پہنچی کہ نعشیں سڑنے لگیں ۔ مریض بے دوا و غذا اور کسی قسم کی طبی امداد نہ ہونے سے بے چارگی میں مر رہے تھے یہ وہ عالم قیامت تھا کہ خود حکومت پریشان تھی ۔ ایسے موقع پر آپؒ نے ایسا نمونہ عمل پیش فرمایا ۔ جہاں کسی کی علالت کی اطلاع ملی وہاں پہنچ گئے ۔ طبی امداد اور غذا کا انتظام فرمایا ۔ تیمارداری کی ،تشفی فرمائی ۔ ضرورت مندوں کی رقمی امداد فرمائی ۔ اسی طرح جہاں کہیں میت کی اطلاع ملی بلاکسی خوف و پس و پیش خود وہاں پہنچ گئے ۔ خود ہی نہلاتے خود ہی کفناتے ، خود ہی اپنے ہاتھوں سے دفناتے ۔
آپ کے دو صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تھیں۔ بڑے صاحبزادے حیدرآباد دکن کے جید عالم دین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید محمد بادشاہ حسینی صاحب قادری لئیقؔ رحمتہ اﷲ علیہ ہیں اور دوسرے صاحبزادے حضرت سید زین العابدین صاحب حاجی پاشاہ رحمتہ اﷲ علیہ ہیں۔
آپ مرض طاعون سے بخار کی شدت میں جبکہ آپ کا وقت آخر آیا فرماتے تھے کہ السلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ ۔ …اسی طرح بار بار فرماتے اور مسکراتے جاتے کبھی ہٹو ہٹو جگہ دو فرماتے ۔ تقریباً یہی کیفیت ۱۹ صفر ۱۳۳۰ھ روز صبح تک رہی اور اﷲ اﷲ فرماتے جانِ جاناں سے جاملے اور دنیائے اسلام کو داغِ مفارقت دائمی دے گئے ۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ آپ کے وصال پر حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب تاج المحدثین بریلی نے اپنے دستخط و مہر سے ایک عربی نظم بطور تعزیت روانہ فرمائی ۔
حضرت سیدالشیوخ سید محمد عمر حسینی صاحب قادری خلیقؔ قدس سرہ العزیز کاعرس مبارک ہر سال ۱۹، ۲۰ ، ۲۱ صفر المظفر کو درگاہ شریف قادری چمن منعقد ہوتا ہے ۔