پھر بہاروں نے پرستار جنوں سے چھیڑ کی
دستِ وحشت کو ہے پھر میرے گریباں کی تلاش
شعبہ تعلیم ‘ فرقہ پرستوں کے نشانہ پر
کسی بھی سماج میں تعلیم کے شعبہ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہتی ہے ۔ تعلیم ہی وہ شعبہ ہے جس میں نمایاں کارکردگی کے ذریعہ سماج کی اصلاح کی جاسکتی ہے ۔ ملک کی ترقی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ دنیا بھر میں ایک مقام حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا جاسکتا ہے اور قوم کو ترقی کی بلندیوں پر پہونچایا جاسکتا ہے ۔ تاہم ہندوستان میں جس وقت سے نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے ایسا لگتا ہے کہ سب سے زیادہ سازشیںتعلیم کے شعبہ کے خلاف ہی ہو رہی ہیں اور اسی شعبہ کو زہر آلود کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ حکومت ہی ایسی کوششیں کر رہی ہے اور اس معاملہ میں سارے ملک اور عوام کی رائے کو ملحوظ رکھنے کی بجائے آر ایس ایس کے نظریہ کو سماج میں شعبہ تعلیم کے ذریعہ تھوپنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ ویسے تو تعلیم کے شعبہ کو نشانہ بنانے کی کوششیں ایک طویل وقت سے وقفہ وقفہ سے ہوتی رہی ہیں لیکن جب سے نریندر مودی اس ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں اس وقت سے یہ کوششیں ایک مشن کے طور پر چلائی جا رہی ہیں۔ اسکولس و کالجس میں یوگا اور سوریہ نمسکار کو لازمی قرار دینے کی مہم شروع ہوئی ہے ۔ ملک کی کئی ریاستوں میں اس کو لازمی کیا جا رہا ہے اور اس معاملہ میں دستور میں فراہم کردہ اس گنجائش کا بھی لحاظ نہیں کیا جا رہا ہے جس کے تحت ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مساوی حقوق دئے گئے ہیں اور ہر ہندوستانی شہری کو اپنے مذہب پر کامل عمل آوری کی ضمانت فراہم کی گئی ہے ۔ سوریہ نمسکار کا جہاں تک تعلق ہے وہ ملک کے مسلمانوں کیلئے عقیدہ کی بات ہے اور مسلمانوں کو ان کے عقیدہ سے پھیرنے کی کوششیں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ ایسی کوششیں سماج اور ملک و قوم کیلئے مناسب نہیں ہوسکتیں۔ ہندوستان ایک گلدستہ ہے اور اس میں طرح طرح کے پھول ہیں۔ یہی اس کی انفرادیت اور اس کی خصوصیت ہے ۔ یہی خصوصیت ہندوستان کو دنیا بھر میں مقبولیت دلاتی ہے لیکن اب اس باغیچہ کا رنگ بدلنے کی کوشش ہو رہی ہے جو قابل قبول قطعی نہیں ہوسکتی ۔ ایسی کوششوں سے ہندوستان کی انفرادیت اور اس کی خصوصیت متاثر ہوجائے گی ۔
تعلیم کے شعبہ کواستعمال کرتے ہوئے سماج میں ایک مخصوص نظریہ اور انداز فکر کو مسلط کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ لوگوں کی سوچ کو بدلنے اور اس پر کنٹرول کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میںروہت ویمولہ کی خود کشی ہو یا جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طلبا کے خلاف کارروائی ہو یا پھر مدراس یونیورسٹی میںطالبات کو نشانہ بنانے کا عمل ہو ان سارے واقعات میں یہی ذہنیت کارفرما ہے ۔ ایسی ذہنیت رکھنے والے لوگ ہندوستان کی ہئیت اور اس کے مختلف مذاہب و ذات پات کے امتزاج کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں ترقی کی کلید یہ ہے کہ یہاں طلبا کو ان کی اپنی سوچ کے مطابق اختراعی اقدامات کرنے کی سہولت اور ماحول فراہم کیا جائے لیکن کچھ عناصر ہیں جو چاہتے ہیں کہ وہ طلبا کی سوچ پر بھی قبضہ کرلیں اور انہیں ایک مخصوص سوچ اور نظریہ کے تابع کردیا جائے ۔ ان کی صلاحیتوں کو ابھرنے سے قبل ہی کچلنے کے اقدامات ہو رہے ہیں۔ اگر کوئی مخصوص نظریات کو قبول کرنے یا اس کی تابعداری سے انکار کرتا ہے تو پھراس کا عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے ۔ یہ ساری کوششیں ایسی ہیں جن سے ملک اور ملک کے عوام کا مستقبل متاثر ہوسکتا ہے ۔ ایسی کوششوں سے سماج میں ہم آہنگی پیدا ہونے کی بجائے بے چینی اور عدم اطمینان کی کیفیت پیدا ہوگی اور یہ کیفیت ملک کی ترقی میںمعاون نہیںہوگی بلکہ اس سے ملک کی ترقی کا سفر متاثر ہوکر رہ جائیگا ۔ سماج میں بے چینی کا عروج اور ہم آہنگی کے فقدان سے دنیا بھر میں ملک کی ساکھ اور اس کا وقار بھی متاثر ہو کر رہ جائے گا ۔
ہندوستان کو اقوام عالم سے مسابقت کرنا ہے تو پھر تعلیم کے شعبہ کو درکار آزادی اور سہولت بخش ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ طلبا برادری کے ذہن پر کنٹرول کرنے کی کوششیں ایسا ماحول فراہم نہیںکرسکتیں اور نہ ایک مخصوص نظریہ کو مسلط کرتے ہوئے طلبا کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ حقیقی معنوں میںملک کی فلاح و بہبود اور بہتری کی فکر کرنے والے گوشوںکو چاہے کہ وہ اس طرح کی کوششوں کے خلاف صدائے احتجاج بلندکریں۔ ایسی مذموم کو ششوں کے خلاف متحد ہوجائیں جو ملک کے مفاد میں نہیں ہیں اور جن سے ملک کی ترقی متاثر ہوسکتی ہے ۔ جن سے سماج میں ہم آہنگی کی بجائے بے چینی پیدا ہوتی ہے ۔ ایسا کرنا ہر فکرمند اور ملک کے بہتر مستقبل کے خواہاں گوشہ ‘ طبقہ اور فردکی ذمہ داری بنتی ہے ۔