شریعت کے نزول کا مقصد عدل و انصاف ہے

توازن و تناسب اور اعتدال کا یہ معاملہ اﷲ تعالیٰ نے صرف مادی چیزوں کے بارے میں ہی نہیں رکھا ، بلکہ دین کے بارے میں فرمایا ( ترجمہ ) وہ اﷲ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب اور شریعت اُتاری ہے ۔ ( سورۃ الشوریٰ ؍ ۴۲:۱۷) یہاں شریعت کو میزان اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ ٹھیک ٹھیک طورپر ناپ تول کر بتاتی ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ؟ کس کا حق کتنا ہے اور فرض کتنا ۔ اﷲ کے حقوق کیا ہیں اور بندوں کے حقوق کیا ہیں ۔ اگر حق و باطل ، حقوق و فرائض اور اوامر و نواہی کا یہ تواڑن بگڑجائے تو پھر فساد ہی رہ جاتا ہے ۔
کتاب و شریعت کا یہ معاملہ صرف رسول اکرم ﷺ کے ساتھ ہی نہیں رہا بلکہ تمام رسولوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا ہے اور اسی وجہ سے ان رسولوں کی شریعت کو بھی میزان یعنی توازن کی چیز کہا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہے : ( ترجمہ ) ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی کھلی نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان ( شریعت ) اُتاری تاکہ لوگ قسط ( عدل و انصاف ، توازن و اعتدال) پر قائم ہوں۔ ( سورۃ الحدید ؍ ۵۷:۲۵) یہاں بھی اﷲ تعالیٰ نے شریعت کو میزان یعنی توازن کی چیز ہی بتایا ہے اور لیقوم الناس بالقسط سے نزول کتاب و شریعت کا مقصد بھی بتادیا گیا کہ اس کا مقصد عدل و انصاف ، توازن و اعتدال ہے ۔

اسی طرح اس پر غور کیجئے ، فرمایا گیا ہے کہ ایمان خوف اور رجا کے درمیان ہے یعنی ایک طرف خوف اور دوسری طرف اُمید ( رجاء ) ہو تو ایمان ان دونوں کے درمیان رہتا ہے ۔ اگر خوف میں شدت آجائے تو مسلکِ خوف زدگی آجائے گا جس کو ’رھبانیت‘ کہتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کرلی ہم نے اس کو ان پر فرض نہیں کیا تھا ، رضائے الٰہی کی طلب میں انھوں نے یہ بدعت خود نکالی پھر اس کی ویسی رعایت نہ کرسکے جیسے اس کی رعایت کا حق تھا أ (سورۃ الحدید ۵۷:۲۷)
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٰ و سلم کا ارشاد مبارکہ ہے ’’اسلام میں کسی نوعیت کی بھی رھبانیت نہیں ہے ‘‘۔ (مسند احمد)
اسلام سے رہبانیت کی نفی کو ایک متفق علیہ حدیث اچھی طرح واضح کرتی ہے ۔ کسی صحابی نے کہا کہ میں ساری رات نماز پڑھوں گا ۔ دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہ کروں گا ، تیسرے نے کہا میں کبھی شادی نہ کروں گا اور عورت سے کوئی واسطہ نہ رکھوں گا ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے ان کی یہ باتیں سماعت فرمائیں تو ارشاد فرمایا : خدا کی قسم ! میں تم سے زیادہ اﷲ سے ڈرتا ہوں اور اس کا تقویٰ کرتا ہوں ۔ مگر میرا طریقہ یہ ہے کہ میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں۔ راتوں کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ۔ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، جس کو میرا طریقہ پسند نہیں ، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح ایک اور صحابی کے بارے میں حضور ؐ کو اطلاع ملی کہ وہ رات دن عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور ایک مدت سے انھوں نے وظیفہ زوجیت ادا نہیں کیا ہے ۔حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے ان کو بلاکر حکم دیا کہ جاؤ اور اسی وقت وظیفہ زوجیت ادا کرو۔ انھوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ ؐ : اس وقت میرا روزہ ہے ، آپؐ نے فرمایا : تو روزہ توڑ دو اور جاؤ ۔ ان دونوں واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کیسی متوازن اور معتدل زندگی پسند کرتا ہے ۔

اسی طرح اگر خوف کی جگہ رجا میں شدت آجائے تو یہ دوسری انتہا ہوگی اور یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی بیج بوئے بغیر ہی کاشت اور کھیتی کی اُمید رکھے ، اور یہ ہوسِ خام ہے ، ایمان کا مقام ٹھیک ٹھیک خوف اور رجا کے درمیان ہے کہ آدمی اﷲ تعالیٰ سے نہ اتنا خوف زدہ ہوکہ اس کی رحمت سے مایوس ہوجائے اور نہ اتنا پراُمید ہوکہ خوف خدا ہی دل سے نکل جائے ۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا کا خوف بھی رکھے اور اس کی رحمت سے اُمید بھی رکھے یہی توازن و اعتدال ہے ۔ اس بات کو آپ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ایک قول سے سمجھ لجئے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ قیامت کے دن سب لوگ جنت میں جائیں گے اور صرف ایک شخص دوزخ میں جائے گا تو مجھے خوف ہوگا کہ شاید وہ شخض میں ہی ہوں گا اور اگر مجھے یہ معلوم ہوکہ سب لوگ دوزخ میں جائیں گے اور صرف ایک شخص جنت میں جائے گا تو مجھے امید ہوگی کہ شاید وہ شخص میں ہی ہوں گا۔ دیکھئے یہاں خوف بھی شدید اور اُمید بھی شدید ، اس لئے توازن قائم ہے اور اعتدال برقرار ۔ یہی توازن و اعتدال دین کے ہر معاملے میں ، زندگی کے ہر شعبے میں ، انسان کے ہر دائرہ کار اور دائرۃ اختیار میں مطلوب ہے۔