شرعی عدالتوں کی تجویز

زمانے میں پھیلی یہ ظلمت مٹاؤ
یقیں عزمِ محکم کی شمع جلاؤ
شرعی عدالتوں کی تجویز
ہندوستان کے مسلمانوں کو حالیہ برسوں میں اپنے شرعی اُمور کی انجام دہی میں دشواریاں پیش آرہی ہیں ایسے میںشعور بیداری کیلئے مسلم دینی ادارے ہر دَم کوشاں ہیں ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے مسلمانوں کی ہر موقع پر رہنمائی کی ہے۔ مسلمان اپنے مذہبی معاملات کو شرعی عدالتوں سے رجوع کرتے ہوئے داخلی مسائل کی یکسوئی کرتے آرہے ہیں، لیکن بعض اوقات مسلمانوں کے اندر ہی چند لوگ اپنے شرعی مسائل کو لیکر عدالتوں سے رجوع ہوتے ہیں، ان میں سے چند ایک مسائل کو قومی میڈیا اور فرقہ پرست عناصر غیر ضروری موضوع بناکر مسلمانوں کو رسواء کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ طلاق ثلاثہ، کثرت ازدواج اور حلالہ جیسے موضوعات کو نفرت کی چادر میں لپیٹ کر دیگر ابنائے قوم کے سامنے مسلمانوں کو بدنام کرتے آرہے ہیں۔ ایسے میں ہندوستانی مسلمانوں کو احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔بلا شبہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے شریعت کے تحفظ میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے، اب اس نے ملک بھر کے اضلاع میں دارالقضاۃ، شرعی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر فرقہ پرست عناصر اپنی زبان کو تکلیف دے کر دیگر اقوام کے سامنے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے اور غلط پروپگنڈہ کرکے مسلمانوں کو ہندوستانی فضاء میں سانس لینے میں دشواریاں پیدا کرنے جیسے حربے اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اگر مسلمان اپنی زندگیوں کا محاسبہ کریں تو دشمن طاقتوں کو آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہوگی لیکن افسوس ہے کہ دینی اداروں کی شرعی مہم اور وقتاً فوقتاً شعور بیداری کوششوں کے باوجود مسلمان از خود اپنے عائیلی مسائل کو دنیا کے سامنے لے جاکر رسوائی کا باعث ہوتے جارہے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے شرعی عدالتوں کے قیام کا ارادہ ظاہر کرنے کے ساتھ ہی اس موضوع پر الیکٹرانک میڈیا نے غیر ضروری بحث چھیڑ دی ہے اور سیاسی قائدین بھی اس پر بیجا تبصرے کرتے ہوئے دیگر ابنائے وطن کے ذہنوں میں غلط بات پیوست کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے 15 جولائی کو دارالحکومت دہلی میں اپنا اجلاس طلب کیا ہے جس میں شرعی عدالتوں کے قیام سے متعلق تجویز پر غوروخوض کرتے ہوئے اس کو روبہ عمل لایا جائے گا۔ یہ وقت مسلم پرسنل لا بورڈ کے ہاتھ مضبوط کرنے کا وقت ہے، تمام ہندوستانی مسلمانوں خاصکر مسلم تنظیموں، مدرسوں اور اداروں کی جانب سے منظم طریقہ سے شعور بیداری مہم چلاتے ہوئے مسلم پرسنل لا بورڈ کی حمایت میں مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہنے کی ضرورت ہے۔ مسلم اُمور پر ملک کے تمام اضلاع میں اسلامی قوانین کے ساتھ مسائل کے حل کے لئے دارالقضاۃ کھولنے کیلئے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارہ بنانے کا منصوبہ اگر کامیاب بنایا جائے تو اس سے مسلمانوں کی نجی زندگیوں میں دراندازی کی کوششیں ناکام بنائی جاسکتی ہیں۔ آندھرا پردیش خاصکر تلنگانہ اور حیدرآباد میں اس طرح کی شرعی عدالتیں کام کررہی ہیں۔ دارالقضاۃ میں مسلم جوڑوں کی کونسلنگ کی جاکر ان کے جھگڑوں اور شکایات کی یکسوئی ہوتی رہی ہے۔ شہر حیدرآباد کی شرعی عدالتیں یہ کام بخوبی انجام دے رہی ہیں۔ برسوں سے یہ شرعی عدالتیں کام کررہی ہیں اور انہیں مؤثر طریقہ سے کام کرنے کیلئے اگر ایک مسلم قومی ادارہ ہو تو اس سلسلہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوسکتی ہیں۔ ملک کی دیگر ریاستوں جیسے اُتر پردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا میں بھی شرعی عدالتیں ہیں۔ اُتر پردیش میں تو 40 ایسی شرعی عدالتیں قائم ہیں۔ دارالقضاۃ کے قیام کا مقصد مسلمانوں کو اپنے شرعی مسائل کو لیکر دیگر عدالتوں سے رجوع ہونے سے روکنا ہے۔ اگر مسلمان اپنے طلاق، حلالہ، کثرت ازدواج اور دیگر روز مرہ کے مسائل کو عدالتوں سے رجوع کرنے کے بجائے شرعی قوانین کی روشنی میں معاملات کو حل کرلیتے ہیں تو یہ شریعت کے دائرہ میں رہ کر اپنی زندگیوں کو سنوارنے میں معاون ثابت ہوں گے۔مسلم پرسنل لا بورڈ کے مطابق ہر ضلع میں ایک دارالقضاۃ کے قیام کیلئے 50 ہزار روپئے خرچ ہوتے ہیں۔ ہر ضلع کے مقامی مسلمانوں کی جانب سے اگر مالی تعاون ہوتا ہے تو شرعی اُمور سے نمٹنے والے اداروں کو بحسن خوبی اپنے فرائض انجام دینے میں مددملے گی۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے دیگر مسائل بھی حل کرنے کی راہ ہموار ہوسکے گی۔ تفہیم شریعت کمیٹی کے قیام کے ذریعہ ہی عام مسلمانوں کو شرعی قوانین سے باخبر بنایا جاسکتا ہے۔ ہر ضلع میں ہر مساجد کی کمیٹیوں کو بھی ذمہ داری لینی چاہیئے کہ وہ اپنے اطراف و اکناف تفہیم شریعت کمیٹی جیسے ادارے بناکر عام انسانوں میں شریعت اور شرعی قوانین کے بارے میں واقف کرواتے رہیں۔