پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی
پھر وہیں پاؤں وہی خار مغیلاں ہوں گے
شرد پوار کی آنکھ مچولی
مہاراشٹرا کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار ایسا لگتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی طاقت بنتے جا رہے ہیں۔ وہ حالانکہ دکھاوے کیلئے اپوزیشن کے اتحاد کی حمایت بھی کرتے ہیں لیکن جب کبھی موقع آتا ہے وہ اس اتحاد کو نقصان پہونچانے اور بی جے پی سے قربتیں بڑھانے کی کوششوں سے بھی باز نہیں آتے ۔ انہوں نے گذشتہ مہینوں میں جب اپوزیشن کے عظیم اتحاد کی بات شروع ہوئی تھی یہ کہا تھا کہ انتخابات سے قبل عظیم اتحاد ممکن نظر نہیں آتا ۔ ایک طرح سے انہوں نے انتخابات سے قبل اور بعد میں سودے بازی کے امکانات کو برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی ۔ اس کے بعد وہ بی جے پی زیر قیادت مودی حکومت پر تنقیدیں کرنے سے بھی گریز نہیںکر رہے تھے ۔ حالانکہ وہ ابتداء سے بی جے پی سے قربت بڑھانے اور اس کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوششوں میں ہیں اور وہ اس اتحاد کیلئے بے چین بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جب مہاراشٹرا میں کانگریس اور این سی پی اتحاد کو شکست ہوئی اور بی جے پی نے وہاں سب سے بڑی پارٹی کا موقف حاصل کرلیا تو شیوسینا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے شرد پوار نے وہاں بی جے پی حکومت کے قیام کیلئے غیر مشروط تائید فراہم کرنے کا اپنی جانب سے یکطرفہ اعلان کردیا تھا ۔ بی جے پی نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور شیوسینا کے ساتھ حکومت تشکیل دی گئی ۔ مہاراشٹرا میں شیوسینا بی جے پی کے ساتھ حکومت کی شریک اور حصہ دار ہوتے ہوئے اس کو کئی مسائل پر تنقیدوں کا نشانہ بنا رہی ہے اور اپنی ایک الگ شناخت کو برقرار رکھنے میںمصروف ہے تو ایسا لگتا ہے کہ شرد پوار اپنی شناخت کو ختم کرتے ہوئے بھی بی جے پی سے قربت بناناچاہتے ہیں۔ رافیل معاملت پر جب اپوزیشن کی جانب سے مسلسل مودی حکومت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حیرت انگیز انکشافات سامنے آ رہے ہیں شرد پوار نے عملا مودی کو کلین چٹ دینے کی کوشش کی ہے حالانکہ بعد میں ان کی پارٹی کی جانب سے لیپا پوتی کرتے ہوئے کئی وضاحتیں کی گئی ہیں لیکن شرد پوار اپنا کام کرچکے ہیں۔ ان کے ریمارکس کانگریس کی مخالف مودی مہم کو نقصان پہونچانے کا باعث ہیں۔
بہار میں این سی پی کے لیڈر طارق انور نے شرد پوار کی جانب سے مودی کو کلین چٹ دئے جانے کے خلاف پارٹی سے استعفی پیش کردیا ہے ۔ شرد پوار کو خیر اس کی پرواہ بھی نہیں ہوگی کیونکہ وہ بہار سے زیادہ مہاراشٹرا کے تعلق سے فکرمند ہیں۔ مہاراشٹرا میں وہ اپنی جماعت کو کوئی سرگرم مقام دلانے کی کوششوں میں جٹے ہوئے ہیں اور انہیںشائد بی جے پی کے سوائے کوئی اور سہارا بھی نظر نہیں آر ہا ہے ۔ وہ اب بھی یہ امید رکھے ہوئے ہیں کہ بی جے پی اور شیوسینا کے تعلقات جب کبھی ٹوٹ جائیں گے وہ فوری بی جے پی کا سہارا بننے کے نام پر خود اپنے لئے سہارا تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ وہ حالانکہ اپوزیشن کی صفوںمیں اور اپوزیشن اتحاد کے حامی ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن ان کی سیاسی آنکھ مچولیوںکا سلسلہ جاری ہے ۔ ایک وقت تھا شرد پوار کانگریس کے اہم ترین قائدین میںشمار کئے جاتے تھے لیکن انہوں نے سونیا گاندھی کے بیرونی نژاد ہونے کے مسئلہ پر اختلاف کیا اور اس کا فائدہ بی جے پی اور شیوسینا کو مہاراشٹرا میںحاصل ہوا ۔ جب تک شرد پوار مہاراشٹرا میں کانگریس کے ساتھ حکومت میں رہے انہوںنے خاموشی اختیار کی لیکن اب وہ اپوزیشن اتحاد کو نقصان پہونچانے کی قیمت پر بی جے پی کی گود میںسہارا تلاش کرنے میںمصروف ہیں اور ان کی یہ کوششیں اپوزیشن اتحاد کیلئے نقصان کا باعث ہوسکتی ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک میںعام انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے سے اتحاد کی کوشش کر رہی ہیں شرد پوار کی ایسی خلابازیاںاور آنکھ مچولیاںاس اتحاد کیلئے نقصان کا باعث ہوسکتی ہیںاور بی جے پی اس کا استحصال کرتے ہوئے شرد پوار کو وقتی طور پر استعمال کرنے سے گریز نہیںکرسکتی ۔ بی جے پینے اب تک کئی مثالیںپیش کردی ہیں جب اس نے کچھ جماعتوںکو اپنے وقت پر استعمال کیا اور پھر بعد میں انہیںنظرا ندازکردیا گیا ۔ کشمیر میںپی ڈی پی اور آندھرا پردیش میںتلگودیشم اس کی واضح مثالیںہیں۔ شرد پوار کو سیاسی آنکھ مچولی کی بجائے ایک واضح موقف اختیار کرنا چاہئے اور ذاتی مفادات کی بجائے ملک کے وسیع ترمفاد کو ذہن میںرکھتے ہوئے کام کرنا چاہئے ۔