شرارت مہنگی پڑی

عدنان ایک بہت ہی ذہین بچہ تھا لیکن ساتھ ہی بہت شرارتی بھی تھا ۔ شکایتیں سن سن کر اس کے والدین پریشان تھے ۔ جب بھی وہ اسے سمجھاتے تو اس پر ایک دو دن کیلئے تو اثر رہتا مگر بعد میں پھر وہی شرارتیں۔ سب لوگ اس سے پریشان تھے ‘ مگر وہ اپنی شرارتیں اتنی مہارت سے کرتا کہ پکڑا نہ جاتا ۔
ایک دفعہ اس نے نمک کا ڈبہ اپنے ہمسائے کے گھر اپنی چھت سے ان کی پکتی ہوئی ہنڈیا میں پھینک دیا جس سے ان کی پکی ہوئی ہنڈ یا خراب ہوگئی ۔ عدنان کے گھر کے سامنے چودھری صاحب کا گھر تھا جو بہت نیک اور رحم دل تھے وہ بھی عدنان کی شرارتوں سے بخوبی واقف تھے ۔ عدنان نے ان کے ساتھ کبھی کوئی شرارت نہیں کی تھی ‘ مگر اب وہ ایک نئی شرارت کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ عدنان نے جب دیکھا کہ کوئی بھی اب گلی میں نہیں ہے تو اس نے چودھری صاحب کی گاڑی کے ٹائر میں کیل چبھودی جس سے اس کا ٹائر پنکچر ہوگیا ۔ جب سب واپس آئے تو چودھری صاحب نے گاڑی چلانے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔ عدنان یہ سب تماشا اپنی چھت سے دیکھ رہا تھا اور بہت خوش ہو رہا تھا کہ اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور وہ نیچے جا گرا ۔ اب وہ شدید درد میں مبتلا تھا کیونکہ اس کا بازو ٹوٹ چکا تھا ۔ گاؤں میں صرف ایک ہی چودھری صاحب کی گاڑی تھی ‘ جس کا ٹائر پنکچرہو چکا تھا ۔ نہ ہی گاؤں میں کوئی ہاسپتال تھا جہاں سے اس کی مرہم پٹی ہوسکتی ۔ عدنان کے والدین اس کو تانگے پر بٹھا کر شہر لے گئے راستے میں جب بھی کوئی جمپ آتی اور جھٹکا لگتا تو اس کے بازو کا جوڑ ہل جاتا جس سے اسے بے حد تکلیف ہوتی اور وہ درد سے چیختا ۔ اب اسے اپنی شرارتوں کی سزا مل چکی تھی ۔