جمہوریت کی ناکامی سے وادی میں انتہاء پسندی کا عروج، ایم ای ایف آئی کا خصوصی پروگرام، ممتاز کشمیری صحافی افتخار گیلانی کا خطاب
حیدرآباد ۔7 جولائی (سیاست نیوز) رائیزنگ کشمیر کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کی شہادت وادی کشمیر میں امن مذاکرات کیلئے بہت بڑا دھکہ ہے۔ ان کے قتل سے کشمیر میں صحافیوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات اور وادی کے حالات وہاں کے عوام بالخصوص نوجوانوں میں پائے جانے والے برہمی کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے اور جہاں تک میڈیا کا سوال ہے کشمیری میڈیا حکومت ہند۔ حکومت موافق انتہاء پسند عناصر اور عسکریت پسندوں کے درمیان پسے جارہا ہے۔ 1987 سے تاحال درجنوں کشمیری صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور جو 7000 افراد آن ریکارڈ لاپتہ بتائے گئے ہیں ان میں بھی بے شمار صحافی شامل ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا حل طاقت کے زور پر نہیں نکالا جاسکتا۔ سب سے پہلے کشمیری عوام میں پائی جانے والی ناراضگی کو دور کرنا ہوگا۔ انہیں برسوں سے جس طرح نظرانداز کیا جارہا ہے اس روش کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز کشمیری صحافی اور ڈی این اے کے ایڈیٹر اسٹیرٹیجک آفیسرس افتخار گیلانی نے پریس کلب بشیرباغ میں منعقدہ ایک خصوصی پروگرام میں کیا جس کا اہتمام میڈیا ایجوکیشن فاؤنڈیشن انڈیا (MEFI) نے کیا تھا۔ سرینواس ریڈی صدر ایم ای ایف آئی نے صدارت کی جبکہ صدر انڈین جرنلسٹس یونین مسٹر ایس این سنہا نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی۔ شجاعت بخاری کی شہادت کے بارے میں افتخار گیلانی نے بتایا کہ انہیں ماضی میں کئی مرتبہ اغواء کیا گیا اور وہ متعدد مرتبہ موت کے منہ میں جاکر واپس ہوئے۔ ایک بات تو ضرور ہیکہ شجاعت بخاری امن اور کشمیریوں سے انصاف کے خواہاں تھے اور بڑی جرأت و بیباکی سے اظہارخیال کرتے تھے۔ شجاعت بخاری کے قتل اور اس کے ذمہ داروں کے بارے میں بھی انہوں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھاکہ ماہ رمضان المبارک میں عین افطار کے بعد انہیں شہید کیا گیا۔ اس وقت دیکھا گیا کہ سی سی ٹی وی کیمرے ناکارہ ہوگئے تھے۔ قریب میں سی آر پی ایف کیمپ بھی موجود تھے۔ تیسری اہم بات یہ ہیکہ دہشت گرد صرف اپنے ہدف کو ہی نشانہ نہیں بناتے۔ اطراف و اکناف میں موجود لوگوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں لیکن شجاعت بخاری کے واقعہ میں شجاعت اور ان کے دو سیکوریٹی گارڈس کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کشمیر میں شہید ہونے والے صحافیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مسعود حسین کا بطور خاص ذکر کیا اور کہا کہ ان کے 70 سالہ ماں باپ اور دیگر ارکان خاندان کو گرفتار کرکے فوجی کیمپ لایا گیا۔ 15 دن تک حراست میں رکھا گیا۔ باپ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ بہن کا استحصال کیا گیا۔ حد تو یہ ہیکہ مسعود کے چھوٹے بھائی کو بھی مار مار کر شدید زخمی کردیا گیا۔ افتخار گیلانی کے مطابق 1989ء میں لاپتہ ہونے کا پہلا واقعہ پیش آیا۔ پندرہ روزہ تکبیر کے کاتب محمد صدیق کا اغواء کیا۔ آج تک ان کا پتہ نہیں۔ اسی طرح کشمیر میں فوج بھی صحافیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتی ہے۔ فوٹو جرنلسٹس مقبول کھوکر اس کی بدترین مثال ہے جنہیں بنا کوئی مقدمہ چلائے چار سال قید میں رکھا گیا۔ 1991ء میں محمد شعبان اور غلام محمد مہاجن کا بھی برا حال کیا گیا۔ یوسف جمیل، مشتاق احمد، احمد علی فیاض، ظفراقبال، پروان سدان بھی ظلم و بربریت کا نشانہ بنے۔ افتخار گیلانی کے مطابق کشمیر میں صحافی محفوظ نہیں ہیں۔ ہر سمت سے انہیں خطرات لاحق ہیں۔ انہیں دھمکیاں دینا عام سی بات ہے۔ اگر کشمیر کے حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہیکہ ریاست میں 1987ء کے انتخابات کے بعد جمہوریت کی ناکامی کے نتیجہ میں انتہاء پسندی کو عروج حاصل ہوا۔ حد تو یہ ہیکہ حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین نے جن کے چیف الیکشن ایجنٹ کسٹمر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یٰسین ملک تھے، ایک بااثر وزیر کو شکست دی تھی لیکن حکام نے صلاح الدین کو ناکام اور شکست خوردہ وزیر کو کامیاب قرار دیا۔ بہرحال کشمیر کے حالات دھماکو ہیں۔ کشمیریوں کا استحصال جاری ہے۔ انہوں نے ایک اور اہم بات یہ کی کہ ملک کے دوسرے مقامات پر ہونے والے واقعات بالخصوص ہجومی حملوں کا اثر کشمیر میں بھی مرتب ہورہا ہے۔ وادی کشمیر کی بدقسمتی یہ رہی کہ یہاں ہمیشہ سے ہی گورنروں کا راج رہا اور کشمیریوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی رہی۔ مسٹر ڈی امر رکن پریس کونسل آف انڈیا نے شکریہ ادا کیا اور چارمینار کا مومنٹو یہ کہتے ہوئے افتخار گیلانی کو پیش کیا کہ حیدرآباد میں کتنے ہی بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوجائیں کوئی بھی عمارت چارمینار کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ چارمینار حیدرآباد کی شان اور اس کا وقار ہے۔