شاہ عبداللہ کا سانحہ ارتحال

زندگی انسان کی اک دَم کے سوا کچھ بھی نہیں!
دَم ہوا کی موج ہے ، رم کے سوا کچھ بھی نہیں!
شاہ عبداللہ کا سانحہ ارتحال
سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا سانحہ ارتحال عالم اسلام بالخصوص عالم عرب کیلئے ایک اہم شخصیت سے محرومی کا سانحہ ہے۔ شاہ عبداللہ کی قیادت میں سعودی عرب نے عالمی سطح پر طاقتور و بااثر ملک کی حیثیت سے مضبوط نمائندہ ملک کے طور پر شناخت بنائی ہے۔ ان کے جانشین سلمان بن عبدالعزیز السعود بھی شاہ عبداللہ کی ترقیاتی اقدامات کو مزید مؤثر بنانے میں اہم رول ادا کریں گے۔ سعودی عرب کے حکمرانوں میں شاہ عبداللہ کو اس لئے بھی اہمیت حاصل تھی کیونکہ انہوں نے ملک کے تمام شعبوں میں غیرمعمولی ترقی اور خوشحالی کے نئے باب رقم کئے تھے۔ ان کی کامیابیوں کی فہرست تیار کرنے والوں کو اس اعتراف سے گریز نہیں ہوگا کہ سعودی عرب کی معیشت کو مستحکم بنانے میں شاہ عبداللہ کا کارنامہ آج ساری دنیا کے سامنے موجود ہے۔ تعلیم، صحت، سوشیل ویلفیر، نقل و حمل، مواصلات، صنعت، بجلی، پانی، زراعت، تعمیرات الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں شاہ عبداللہ نے ماضی کی بہ نسبت سعودی عرب کو زیادہ ترقی یافتہ ملک بنادیا ہے۔ ان کے حالیہ توسیع پسندانہ پراجکٹس خاص کر حرم شریف کے توسیع پراجکٹ سے سالانہ مقدس اجتماع حج کے لئے بہتر سے بہتر سہولتیں فراہم کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ ہر سال اقطاع عالم سے آنے والے اللہ کے مہمانوں کیلئے تمام سہولتیں فراہم کرنے کیلئے شاہ عبداللہ نے مکہ معظمہ میں انفراسٹرکچر کا وسیع جال پھیلا دیا تھا۔ مدینہ منورہ کی پاکیزہ فضاء میں عازمین کو کشادہ ماحول میسر کرانے میں ان کے پراجکٹس تیزی سے پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں۔ وادی منیٰ، جمرات کے پل اور میدان عرفات میں عازمین کی ہر سہولت کا خیال رکھتے ہوئے کئے گئے کاموں سے آنے والے دنوں میں لاکھوں مسلمان مستفید ہوتے رہیں گے۔ شاہ عبداللہ کے انتقال کے بعد اقتدار کی منتقلی اور نئے شاہ کی تخت نشینی کا عمل پر وقار طور پر پورا کرلیا گیا۔ اس سے ساری دنیا کو یہ مضبوط اشارہ مل گیا ہیکہ سعودی عرب میں قائدانہ صلاحیتوں کی حامل شخصیتوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ نئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اپنے بیشرو بادشاہ کے کاموں کو جاری رکھیں گے خاص کر اصلاحات پسندانہ اقدامات کے ذریعہ شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی یونیورسٹیوں کو بااختیار بناتے ہوئے خواتین کو حقوق دینے کے حصہ کے طور پر مخلوط تعلیم کی بنیاد بھی ڈالی اگر چیکہ شاہ عبداللہ سعودی عرب کے بزرگ عالم دین اور علمائے کرام کے نورنظر رہے ہیں لیکن جب اصلاحات کے معاملہ میں شوریٰ کونسل نے خواتین اور مرد حضرات کی مخلوط تعلیم پر اعتراض کیا تو شاہ عبداللہ نے اصلاحات کے عمل سے پیچھے ہٹنے کے بجائے شوریٰ کونسل سے ان مخالف علماء کو علحدہ کرکے یہ پیام دیا تھا کہ سعودی عرب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی راہ میں قدامت پسندانہ خیالات کے حامل نظریات رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ عصری تقاضوں سے سعودی عرب کو بھی آراستہ کرتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دیتے ہوئے شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کو دنیا بھر سے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل کرنے کی سمت پیشرفت کی تھی۔ شاہ عبداللہ نے عرب ملکوں میں اٹھنے والی تحریکوں خاص کر بہار عرب تحریک کے دوران سعودی عرب میں مضبوط قیادت کا ثبوت دیا تھا۔ مشرق وسطیٰ، مصر، فلسطین شام، اور یمن کے کشیدہ حالات میں سعودی عرب نے ان کی قیادت میں قائدانہ کردار ادا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔ اپنی 10 سالہ شاہی حکومت میں امریکہ کے بشمول تمام ترقی یافتہ ملکوں اور ترقی پذیر ملکوں میں چین اور ہندوستان کے ساتھ بھی دوستی کو فروغ دیا تھا۔ جنوری 2006ء میں شاہ عبداللہ نے یوم جمہوریہ پریڈ میں خصوصی مہمان کی حیثیت سے شرکت کی تھی اور وہ آزادی ہند کی تاریخ میں 51 سال کے دوران ہندوستان کا دورہ کرنے والے پہلے سعودی شاہ تھے۔ سعودی عرب میں غیرمقیم افراد کو درپیش مسائل اور مقامی آجرین کی من مانی کو برخاست کرنے کے لئے نطاقہ پالیسی پر تنقیدیں بھی ہوئیں اور ستائش بھی کی گئی۔ اس نطاقہ پالیسی سے کئی غیرمقیم ہندوستانیوں کو روزگار سے محروم ہونا پڑا تو کئی حقیقی ماہرین اور ورکرس کو ان کا جائز مقام اور اجرت ملنے لگی ہے۔ ہندوستان کے تعلقات دیرینہ رہے ہیں۔ شاہ عبداللہ کے انتقال سے بلاشبہ ہندوستان ایک اچھے اور مخلص دوست سے محروم ہوا ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم نریندر مودی نے شاہ عبداللہ کی صحتیابی کیلئے اپنے جذبہ خیرسگالی کا اظہار کرتے ہوئے ہند ۔ سعودی عرب تعلقات میں ہندوستانی خارجہ پالیسیوں میں کئی تبدیلی کا اشارہ نہیں دیا تھا۔ توقع ہیکہ ہندوستان کی مودی حکومت سعودی عرب کے نئے فرمانروا کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کیلئے کام کرے گی۔ سعودی عرب میں تقریباً 30 لاکھ غیرمقیم ہندوستانی برسرکار ہیں۔ ان کے مستقبل کو روشن بنانے کیلئے نئے شاہ سلمان سے حکومت ہند کے دوستانہ روابط کو وسعت دی جائے گی۔
ہندوستانی معیشت اور سرمایہ کاری
وزیرفینانس ارون جیٹلی نے ڈاؤس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں ہندوستانی معیشت اور سرمایہ کاری کے مواقع پر عالمی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ خوش کن اظہارخیال کیا کہ چند ٹھوس تبدیلیوں کے ذریعہ ہندوستان کی معیشت 8.9 فیصد کردی جائے گی۔ وزیرفینانس کو اس عالمی فورم میں ہندوستان کی معاشی شبیہہ کو بہتر طریقہ سے پیش کرنے میں اس وقت مشکل پیش آئی جب عالمی سرمایہ کاروں نے ہندوستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی یا گھر واپسی جیسے پروگراموں کے بارے میں استفسار کیا کیونکہ بیرونی سرمایہ کاروں میں سے ایک بڑی کمپنی کے سرمایہ کار نے وزیرفینانس سے راست طور پر سوال کیا تھا کہ ہندوستان میں رشوت ستانی کے واقعات عام ہیں جس کی وجہ سے ان کی کمپنی نے رشوت کی وجہ سے اپنے سرمایہ کاری کے منصوبہ کو واپس لے لیا تھا۔ ہندوستان میں مودی حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد رشوت کے خاتمہ کا دعویٰ کرنے والے وزیرفینانس کو عالمی فورم میں معاشی طور پر طاقتور ملکوں کے قائدین کو اس بات پر بھی مطمئن کرانے میں بھی جدوجہد کرنی پڑی کہ غیرمشغول سرمایہ کاری ڈیوڈنڈ اور اسپکٹرم کی فروخت کے معاملہ میں مودی حکومت کی پالیسیاں غیر واضح ہیں۔ آنے والے دنوں میں عام بجٹ پیش کرنے کی تیاری کرنے والے وزیرفینانس کو اعلیٰ پیداوار کی صلاحیتوں کو کس طرح فروغ دیا جائے یہ پالیسی بنانا ہے اور روزگار پیدا کرنے کیلئے کیا اقدامات کئے جاتے ہیں یہ اہم ہے۔ غربت کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے بحیثیت وزیرفینانس انہوں نے اپنی بجٹ پالیسیوں میں کئی نکات کو ملحوظ رکھا ہے۔ وہ عالمی سرمایہ کاروں سے سرمایہ کاری کے حصول میں کس طرح کامیاب ہوں گے یہ بھی ان کے بجٹ منصوبوں پر منحصر ہے۔ ٹیکس شرحوں میں کٹوتی اور شخصی انکم ٹیکس کی حد کو 5 لاکھ روپئے تک بڑھانے کے مطالبات پر ان کا کیا ردعمل ہوگا اس پر تنخواہ یاب طبقہ کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ مودی حکومت کو اندرون ملک اور بیرون ہند ایک کامیاب حکومت بنا کر پیش کرنے کیلئے وزیرفینانس کو اگر سبسیڈی پر کٹوتی کا خیال سستا رہا ہے تو اس سے بہتر معیشت اور متوسط طبقہ کو راحت دینے کے وعدوں کی نفی ہوگی۔ میک ان انڈیا پالیسی کے بارے میں جیٹلی کا بجٹ اور مودی حکومت کے منصوبوں میں فرق پایا جائے تو پھر سرمایہ کاری کے حصول کی کوششیں ثمرآور نہیں ہوں گی۔