ملک شام وہ ملک ہے، جس کے فضائل سن کر ہم بڑے ہوئے۔ جب کبھی ملک شام اور ملک یمن کا ذکر آتا، محبت و عظمت سے جذبات بھڑکنے لگتے۔ جب کبھی ملک شام اور ملک یمن کا ذکر ہوتا تو کانوں میں بخاری شریف میں نقل کردہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور و معروف دعاء گونجنے لگتی کہ ’’اے اللہ! تو ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، نیز ہمارے یمن میں ہمارے لئے برکت عطا فرما‘‘۔
ملک شام وسیع و عریض اسلامی سلطنت کا عرصہ تک دارالخلافہ رہا، دین اسلام کے علاوہ عیسائی اور یہودی مذہب میں بھی ملک شام کا بڑا تقدس ہے، اس لئے کہ تینوں مذاہب کے سرخیل حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی ہجرت گاہ ملک شام رہی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ملک شام کی طرف لوگ بار بار ہجرت کریں گے، اہل زمین حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ کی طرف کشاں کشاں جائیں گے‘‘ (الحدیث) تواریخ میں حضرت لوط، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت ایوب، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت الیسع، حضرت ذی الکفل، حضرت زکریا اور حضرت یحیی علیہم السلام کا ملک شام سے تعلق رہا ہے۔ مخفی مباد کہ فلسطین ملک شام ہی کا حصہ رہا، اس لئے قرآن مجید و احادیث شریفہ میں فلسطین اور اس کے اطراف کا ذکر آتا ہے، اس سے ملک شام مراد ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور انبیاء بنی اسرائیل کا مرکز ہونے کی بناء ملک شام مذہبی اعتبار سے بھی اہم رہا اور اس سے قبل وہاں عیسائیوں کی اکثریت رہی۔ یہ ملک قدیم سے تہذیب و تمدن اور سیاحت و تجارت کا مرکز رہا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک شام کا سفر فرمایا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے ایک حصہ میں سیر کرائی مسجد حرام سے بیت المقدس کی طرف، جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں‘‘ (سورۃ الاسراء۔۱) بیت المقدس کے اطراف میں برکت رکھے جانے کا ذکر درحقیقت ملک شام کے تقدس کو بیان کرتا ہے۔
دین اسلام میں ملک شام کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول دمشق میں ہوگا۔ حضرت مہدی کی زیر حمایت اسلامی سلطنت کا قیام ملک شام سے ہوگا، نیز حشر و نشر بھی ملک شام کی سرزمین پر ہوگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ملک شام میں سکونت اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اجلۂ صحابہ کرام کی آخری آرامگاہ ملک شام میں ہے۔ حضرت ابوالدرداء، حضرت ام الدرداء، حضرت اوس بن سعد، مؤذن رسول حضرت بلال بن رباح، حضرت خالد بن ولید، حضرت سعد بن العاص، حضرت یزید بن ابی سفیان، حضرت معاویہ بن ابی سفیان، حضرت حرملہ بن ولید رضی اللہ عنہم کے علاوہ دیگر صحابہ کرام دمشق اور اس کے قرب و جوار میں مدفون ہیں۔ تاحال ملک شام دنیائے اسلام کا عظیم علمی و روحانی مرکز رہا ہے۔
افسوس کہ دنیائے اسلام کا یہ عظیم الشان علمی و روحانی مرکز باطل کے ہاتھوں پھر ایک بار تباہ ہو گیا، بستیاں اجڑ گئیں، مساجد ڈھا دی گئیں، کمسن بچے لقمہ اجل ہو گئے، قتل و خون عام ہوا اور ظلم و ستم کی انتہاء ہو گئی۔ حالیہ عرصہ میں مختلف مسلم ممالک تباہ و برباد ہوئے، لیکن بے قصور شہریوں پر جس طرح ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے، شاید کہیں ایسی صورت حال دیکھنے میں آئی ہو۔ دشمنان اسلام کھلونے کی طرح ملک شام کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ ظالم و جابر حکومت کی درندگی و سفاکی ہی کیا کم تھی کہ دیگر ممالک نے بھی ہوائی حملے کرکے اہل شام کا جینا دوبھر کردیا، جس کے نتیجے میں اہل شام اپنی اور اپنی آل و اولاد کی جان بچانے کے لئے خود کو سمندر کے حوالے کر رہے ہیں اور اب تک سیکڑوں افراد سمندر کی نذر ہو چکے ہیں۔ کئی خاندان بھوکے پیاسے اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر یوروپی ممالک پہنچ رہے ہیں۔ بعض یوروپی ممالک کے لوگوں کو جب ان کی حالت زار پر رحم آیا اور انھوں نے ان کو اپنے سینوں سے لگاکر ان کے آنسو پونچھے تو دشمنان دین کو یہ ہمدردی بھی نہیں بھائی۔ انھوں نے منظم سازش کے تحت پیرس میں دھماکے کئے، یعنی ایک بار پھر انسانی نفسیات کے کھلواڑ کیا گیا، شامی مہاجرین سے متعلق خوف و دہشت کا ماحول پیدا کیا گیا، اسلام سے متعلق مزید بدگمانی کو ہوا دی گئی اور کئی ممالک کے سربراہوں نے شامی مہاجرین کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ امریکہ میں تیس سے زائد ریاستوں نے شامی مہاجرین کو قبول نہ کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔
ایسے پرآشوب ماحول میں میری ملاقات میرے قریبی دوست Mikc Watts سے ہوئی، جو تقریبا ۷۳ برس کے ہیں۔ ناسازی مزاج کی وجہ سے فکرمند ہیں۔ جب میں ان کی عیادت کے لئے ان کے گھر گیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ بیماری میں دوست کی ہمددی اور انس کی ضروری ہوتی ہے۔ آپ نے عیادت کرکے مجھے بہت سکون پہنچایا ہے۔ دوران گفتگو انھوں نے شامی مہاجرین کا ذکر کیا اور کہا کہ میں ان سے متعلق بہت فکرمند ہوں اور کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ابتداء میں ان کی بات کی طرف زیادہ توجہ نہ دی، لیکن انھوں نے مجھ سے کہا کہ پیرس دھماکوں کے بعد مسلمانوں کے لئے مزید مشکلات پیدا ہو گئی ہیں، اس کے باوجود ہم کو مل کر کچھ کرنا چاہئے۔
پھر میں نے جنوری ۲۰۱۶ء میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے مہینہ میں ایک اہم اجلاس کے انعقاد اور اس میں مقامی افراد کو مدعو کرنے سے متعلق گفتگو کی، تاہم انھوں نے دوبارہ پھر شامی مہاجرین کا ذکر چھیڑ دیا اور کہا کہ میں اپنے چرچ سے بات چیت کرکے دو تین شامی خاندانوں کی ذمہ داری لینا چاہتا ہوں، کیا اس سلسلے میں آپ ہماری کچھ مدد کریں گے؟۔ میں نے جواب دیا کہ تجویز تو بہت عمدہ ہے، البتہ چرچ کے تحت کرنے کی بجائے آپ عیسائیوں کی نمائندگی کریں اور میں مسلمانوں کو راغب کرتا ہوں۔ دونوں مل کر مشترکہ کام کریں گے، آپ اپنے چرچ سے مدد حاصل کریں اور میں اپنی مسجد سے تعاون طلب کروں گا۔ یا پھر آپ کا چرچ اور ہماری مسجد ’’اسلامک سنٹر آف گولڈ سبورو‘‘ مشترکہ طورپر خدمت انجام دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اگر ایسا ہو جائے تو ایک مسلمان اور ایک کرسچن یا ایک چرچ اور ایک مسجد کا انسانیت کی بنیاد پر شامی مہاجرین کی حمایت میں یہ مشترکہ اقدام سب کے لئے ایک نظیر بن جائے گا۔
انھوں نے فی الفور اٹھ کر اپنے چرچ کو ای میل کیا اور اطلاع دی کہ وہ اپنے مسلمان دوست امام قاسم صدیقی تسخیر کے ساتھ مل کر شامی مہاجرین کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں، کیا چرچ اس کارخیر میں حصہ لینا چاہے گا؟ اور اپنے سابق تجربات و معلومات سے ہم کو آگاہ کرے گا؟۔
تاحال کوئی جواب وصول نہیں ہوا اور نہ ہی پیش رفت ہوئی، لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایک معمر عیسائی جو بیماری کی وجہ سے اپنی زندگی سے مایوس ہے، اس نے بڑی ہی آزردگی سے مجھ سے کہا کہ ’’میں مرنے سے پہلے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے زندگی میں کوئی کام نہیں کیا، اگر میں شامی مہاجرین کے لئے کچھ کردوں یا عیسائی، مسلمان اور یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردوں تو دنیا کو چھوٹے پیمانے پر ہی سہی انسانی احترام کا سبق دے سکوں گا اور اس کے بعد میں یہ سمجھوں گا کہ میں نے انسانیت کے لئے کچھ کیا ہے۔
اس آرزو کے اظہار اور مسلمانوں کے تئیں ان کی ہمدردی نے مجھے کافی متاثر کیا، کیونکہ یہ وہ شخص ہے، جو نہ صرف اسلام کے حقائق کو جانتا ہے، بلکہ باطل طاقتوں اور میڈیا کی زہر افشانیوں سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔ میرا خیال ہے کہ عام طورپر امریکہ اور مغربی دنیا کے باشندے چھپے ہوئے مکر اور زہر سے شاید ناواقف ہیں۔