جنیوا۔ 26 فبروری ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شامی تنازعے کے سبب بے گھر ہونے والوں کی ایک کثیر تعداد کی وجہ سے شامی شہری دنیا کی سب سے بڑی مہاجر آبادی بننے کے قریب ہیں۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑٰی مہاجر آبادی افغانوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے منگل کو جنرل اسمبلی کو بتایا کہ سلامتی کونسل میں شام کے بارے میں منظور ہونے والی قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے عالمی برادری کو یکجا ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں لاکھوں افراد مدد کے طلبگار ہیں، ’’متاثرہ شامی علاقوں کیلئے امدادی سامان کی سپلائی تیار ہے۔ منتظر افراد تک اس سامان کی ترسیل کو ممکن بنانے کیلئے ہمیں محفوظ راستوں کی ضمانت چاہیے‘‘۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم امر ہے کہ شامی حکومت اور اس تنازعے کے تمام فریقین نے امدادی سامان کی پر امن تقسیم میں تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ شام میں گزشتہ تین برس سے جاری بحران کے نتیجے میں مجموعی طور پر بے گھر ہونے والوں کی تعداد 9.3 ملین بتائی جا رہی ہے۔
یہ تعداد ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً نصف بنتی ہے۔ اقوام متحدہ کے محتاط اندازوں کے مطابق اس بحران کی وجہ سے 2.4 ملین شامی باشندے ملک چھوڑنے پر بھی مجبور ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مہاجرت کے ادارے کے کمشنر اونتینیو گوٹیرش کا کہنا ہے کہ پانچ سال قبل شام دنیا کے مہاجرین کو پناہ دینے والا دوسرا سب سے بڑا ملک تھا لیکن آج وہ افغانستان کو پیچھے دھکیلتا ہوا، خود دنیا کی سب سے بڑی مہاجر آبادی بننے جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دیکھ کر انہیں انتہائی دکھ ہو رہا ہے کہ کئی عشروں تک دنیا کے مہاجرین کو خوش آمدید کہنے والا ملک آج خود بحران کا شکار ہے اور اس کے اپنے شہریوں کو ہی دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنا پڑ رہا ہے۔
25 فروری کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو شام کی تازہ صورتحال بتاتے ہوئے انسانی حقوق کی کمشنر ناوی پلے کا کہنا تھا کہ صدر بشار الاسد کی حامی افواج بیرل بموں کا بے دریغ استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے نہ صرف لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور ہیں بلکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک بھی ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہزاروں لوگ سرکاری جیلوں یا غیر سرکاری عقوبت خانوں میں زیر حراست بھی ہیں۔ انہوں نے عالمی برداری پر یہ زور بھی دیا کہ وہ شام میں اسلحے کی ترسیل کو بند کرتے ہوئے وہاں غیر ملکی جنگجوؤں کے داخلے کو بھی روکنے کی کوشش کرے۔ شام میں باغی جہاں صدر بشار الاسد کے خلاف محاذ آرا ہیں، وہیں ان کی اس جدوجہد میں شریک متعدد اسلامی شدت پسند گروہ بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان اسلامی عسکریت پسند گروہوں کے درمیان جھڑْپوں کی اطلاعات بھی اب عام ہو چکی ہیں۔