شام کے بیارل بم حملوں میں شدت‘ عالمی توجہ مبذول

بیروت۔ 2؍نومبر (سیاست ڈاٹ کام)۔ عالمی توجہ جہادیوں کے خلاف جنگ پر مرکوز ہے جب کہ شامی حکومت نے حالیہ ہفتوں میں مہلک بیارل بم حملوں میں شدت پیدا کردی ہے جس سے بے قصور شہری ہلاک ہورہے ہیں اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیل رہی ہے۔ پندرہ دن سے بھی کم مدت میں عراق کے جنگی طیاروں نے کم از کم 401 بیارل بم باغیوں کے زیر قبضہ 8 صوبوں پر گرائے ہیں۔ شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق کے بموجب انسانی حقوق کے کارکن یٰسین عبدالرئیس نے قصبہ انادان صوبہ حلب سے اطلاع دی ہے کہ ان کے مکان کو تین بار بیارل بم حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ تازہ ترین حملوں میں مکان مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ انھوں نے انٹرنیٹ کے ذریعہ اطلاع دی کہ ہماری چاروں طرف موت ہے

، لیکن کسی کو بھی اس کی پرواہ نہیں ہے۔ بیارل بموں سے ہمارے تمام رشتہ دار ہلاک ہوگئے ہیں، مکان تباہ ہوچکے ہیں، خواب اور یادیں بکھر چکی ہیں۔ ہمارے لئے کوئی اُمید باقی نہیں رہی جس کے ذریعہ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ روکا جاسکتا ہو۔ ان تمام حملوں کے باوجود کوئی بھی ہماری آواز نہیں سنتا، کسی کو بھی ہمارے درد کا احساس نہیں ہے۔ شامی رصدگاہ نے جو حملوں اور ہلاکتوں کے اعداد و شمار جمع کرتی ہے، زیادہ تر سرگرم نیٹ ورک اور جنگ زدہ شام کے ڈاکٹروں کی فراہم کردہ اطلاعات پر انحصار کرتی ہے۔ ان اطلاعات کے بموجب کم از کم 232 بے قصور شہری سرکاری فوج کے فضائی حملوں میں جن میں بیارل بم حملے بھی شامل ہیں، 20 اکٹوبر سے اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔ رصدگاہ کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمن نے کہا کہ بیارل بم حملے اب پندرہ قبل کے حملوں کی بہ نسبت زیادہ شدید ہوچکے ہیں۔

سرکاری فوج نے 2012ء کے اواخر سے بیارل بم حملے کرنے شروع کئے تھے جن میں جاریہ سال شدت پیدا کردی گئی جب کہ صرف ماہ فروری کے دوران سینکڑوں افراد ہلاک کردیئے گئے۔ بیارل بم حملے بڑے تیل کے ڈرموں، گیس سلنڈرس یا پانی کی ٹانکیوں کے ذریعہ کئے جاتے ہیں جن میں انتہائی دھماکو مادّے اور دھاتوں کے ٹکڑے جمع ہوتے ہیں۔ گزشتہ چہارشنبہ کو ہیلی کاپٹرس نے 4 بیارل بم شمال مغربی صوبہ ادلیب میں بے گھر افراد کے کیمپوں پر گرائے تھے جس سے کم از کم 10 افراد ہلاک اور بیسیوں دیگر زخمی ہوگئے تھے۔ انسانی حقوق کارکنوں نے ہولناک ویڈیو جھلکیاں یوٹیوب پر شائع کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نعشوں کے ٹکڑے ہوگئے ہیں اور لوگ زندہ بچ جانے والے لوگوں کو بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ امریکہ نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انھیں بربری حملے قرار دیا ہے۔ اسمٰعیل الحسن نے جو ایک رضاکار نرس ہے، ایک فیلڈ ہاسپٹل سے ادلیب سے اطلاع دی ہے کہ صحت کارکنوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ بیارل بم حملے کے زخمیوں کے علاج کے لئے درکار دوائیں ان کے پاس موجود نہیں ہیں۔ بیارل بم حملوں سے ہلاک ہونے والے افراد میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے۔ انھوں نے کہا کہ طبی عملہ آلات اور دواؤں کی شدید قلت کی وجہ سے پریشان ہیں اور لوگوں کا علاج کرنے میں انھیں سخت مشکلات پیش آرہی ہیں۔ حسن نے کہا کہ وہ اور اس کے ساتھی گہرے نفسیاتی زخموں کا شکار ہوگئے ہیں جب کہ انھیں متاثرین کا علاج کرنا پڑا۔