شام کیلئے امن مذاکرات

آگ بھی خود ہی وہ لگاتے ہیں
اور خود ہی بجھانے دوڑتے ہیں
شام کیلئے امن مذاکرات
شام کے حالات کو پرامن بنانے کی کوشیش اگر کامیاب نہ ہوں تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ آیا یہاں بندوق کے زور سے بشارالاسد حکومت کو ہٹایا جائے گا ۔ واقعی شام کی حکومت بندوق کی نالی سے ہٹادی گئی تو پھر امریکہ کے بشمول تمام بڑے ملکوں کو دیگر عرب ممالک میں یہی عمل دہرانے کا مزہ لگ جائے گا۔ شام کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے والے عرب ممالک کیا ادراک و احساس رکھتے ہیں یہ انہیں معلوم ہوجائے تو مستقل میں انہیں لاحق ہونے والے خطرہ سے بچا جاسکتا ہے ۔ اقوام متحدہ کے بشمول تمام مغربی ملکوں کے نمائندے اس وقت سوئیزر لینڈ میںشام کی خانہ جنگی کو ختم کرنے اس مذاکرات میں مصروف ہیں لیکن یہ مذاکرات تلخ کلامی سے شروں ہوں تو کامیاب ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان نے اس خانہ جنگی کو روکنے میں ناکامی کے بعد استعفی دیا تھا اب اقوام متحدہ کے خصوصی قاصد اخضرابراہیمی شام کے مختلف فریقین کے ساتھ علحدہ علحدہ ملاقات کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ شام میں حکومت اور باغی گروپ دونوں قومیمشترکہ مذاکرات کیلئے رضا مند ہے اس کا پتہ چلانے کی کوشش تو کی جارہی ہے مگر سوئیزر لینڈ میں جمع عالمی قائدین نے اب تک شام کے دونوں فریقوں کو روبرو لانے میں کوئی ٹھوس کامیابی حاصل نہیں کی ۔ امریکہ یہی کہتا آرہا ہے کہ صدر بشارالاسد کی اقتدار سے علحدگی تک شام کو نہیں بچایا جاسکتا ۔ حکمراں طبقہ کے ارکان کی ضد ہے کہ کسی بھی صورت بشارالاسد حکومت اقتدار سے دور نہیں ہوگی ۔ غور طلب امر یہ ہے کہ شام کے خلاف امریکہ کو بعض عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے جس طرح ماضی میں لیبیا، مصر اور تینوس کے سلسلہ میں بڑی عرب لہر اٹھی تھی اس کا فائدہ مغربی ملکوں کو ہی ہوا تھا اس خطوط پر شام کو لے جانے کی کوشش ہورہی ہے ۔ شام کی صورتحال کم و بیش لیبیا کی طرح ہی بنائی جارہی ہے ۔ حکمراں معمر قذافی کی طرح بشارالاسد صدر شام کو بھی قتل کرکے مغرب نواز شخصیت کو اقتدار پر بٹھادیا جائے تو عالم عرب میں کیا ہوگا۔؟ مغربی ممالک ان کے مقاصد میں کامیابی ملتی ہے تو عالم عرب کے اہم وسائل پر اسرائیل کا قبضہ ہوگا لیکن روس اور چین کی وجہ سے شام پر بد نگاہی ڈالنے سے گریز کررہے ہیں لیکن باغیوں کو امداد دی جارہی ہے ۔ وزیر خارجہ شام ولعہد المعلم نے امن مذاکرات کے شرکاء سے یہی کہا ہے کہ باغیوں کو امداد بند نہ کی گئی تو امن کا تصور مشکل ہوگا۔ یہ بات درست ہے کہ کسی مسئلہ کی یکسوئی کیلئے ڈپلومیسی اور دہشت گردی کو ایک ساتھ جاری رکھا نہیں جاسکتا۔ مغرب کی ڈپلومیسی اس بات کی غماز ہے کہ وہ عالم عرب میں مضبوط قدم جمانے شام کو باب الداخلہ بنائے ۔ باغیوں کا خیال بھی غور طلب ہے کہ جب تک اقتدار پربشارالاسد رہیں گے تصفیہ نہیں ہوسکے گا۔ اس امن مذکرات میں تقریبا 30 ملکوں کے نمائندے شریک ہیں اور حالات و وقت کی دھار تلوار سے زیادہ تیز ہوتے جارہی ہے۔ امریکہ کے سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری کے بیان نے مذاکرات کیلئے جمع عالمی قائدین کو مایوس کیا ہے

ان کا کہنا تھا کہ بشارالاسد کے اقتدار میں رہتے ہوئے کوئی راستہ نکلنا مشکل ہے ۔ شام کی صورتحال اور ایک اہم سوال اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتے ہیں کہ شام کی سرکاری فوج کے خلاف لڑنے والے باغی کون ہیں اگر یہ باغی اپنے عوام کے حقوق کا تحفظ کیلئے لڑ رہے ہیں تو انہیں معربی امداد مل رہی ہے تو اسے سوچے سمجھے منصوبہ کاحصہ قرار دیا جارہا ہے جس کے تحت بشارالاسد حکومت کو ختم کردیا جائے گا ۔ اس کوشش میں اب تک ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 3 سال سے جاری اس تنازعہ کو ختم کرانے سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے کیوں نکہ اس ایک تنازعہ نے شام کی ایک نسل کو بھی تباہ کردیا ہے ۔ شام کے شہری اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے قاصر ہیں غور کریں کہ گذشتہ 3 سال سے بچے اسکول نہیں گئے ، عام آدمی اپنے گھر سے روزگار کیلئے باہر نہیں نکلا۔ اس تلخ حقیقت کو نظر انداز کر کے امن مذاکرات کی سطح کوشش کی جائے تو کوئی ثمر آور نتائج برآمد نہیں ہوں گے ۔ امن لانے کی خواہش رکھنے والی بڑی طاقتوں کو شام کے مسئلہ پر انسانوں کی طرح سوچنا ضروری ہے وہاں کے ابتر حالت پر تبصرے کر کے جلتی پر تیل ڈالنے کام کرنے کے بجائے جیسا کہ جان کیری نے بیان دیا ہے ۔ انسانی ہمدردی کا سنجیدگی سے مظاہرہ کیا جانا چاہئے ۔ شام کی صورتحال ابتداء میں عالمی طاقتوں کے موافق تھی لیکن ان مغربی طاقتوں میں امن مسئلہ پر سرد جنگ شروع ہوئی تو شام کے مسئلہ پر تعطل پیدا ہوگیا اور بشارالاسد کو اپنی حکومت مزید مضبوط کرلینے کا موقع بھی مل گیا۔ ان کی سرکاری فوج مسلسل بمباری کررہی ہے، جنگی جرائم کے واقعات کھلی آنکھ سے دکھائی دے رہے ہیں اب بھی عالمی طاقتوں کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔

ایک رف باغیوں کو عصری اسلحہ سربراہ کئے جارہے ہیں دوسری طرف امن مذاکرات کیلئے ایک میز پر جمع ہوتے ہیں تو مذاکرات ناکام ہونا یقینی ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ شام کی بگڑتی صورتحال کو قابو پاتے ہوئے مشرق وسطی میں ایک نئی جنگ کی شروعات کو روکنا ضروری ہے ۔ مگر افسوس عالم عرب میں اس مسئلہ پر منقسم ہوتو کامیابی کی فرصیہ موہوم ہوجاتی ہے اس کے بعد شام نے تقریبا 20 لاکھ سے زائد افراد اپنے ملک سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوں گے ۔ 65 لاکھ افراد ملک کے اندر بھی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوں گے ۔ باغی گروپ نے بشارالاسد حکومت کو ’’قضافی‘‘ گروپ سے تعبیر کیا ہے تو اس حکمراں پارٹی کے خلاف امن قائم کرنے کی کوشش فضول ہوں گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شام کی صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکا جائے اور تمام عالمی قائدین کو تشدد و دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر اپنا یک مضبوط پلیٹ فارم بنانا چاہئے تا کہ شام کے عوام کو در پیش مسائل و مشکلات سے چھٹکارہ مل سکے۔