اقوام متحدہ۔ 9 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) شام میں باغیوں کے خلاف جنگ میں 74 ممالک کے 12,000سے زیادہ جنگجو حصہ لے رہے ہیں، ان میں سے 60 تا 70 فیصد مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک اور 20 تا 25 فیصد مغربی ممالک کے شہری ہیں۔ دہشت گردی کے بارے میں نامور ماہر بین الاقوامی مرکز برائے مطالعہ بنیاد پرستی کنگس کالج لندن کے پروفیسر پیٹر نیومیان نے کہا کہ شامی خانہ جنگی بیشتر نمایاں غیرملکی جنگجوؤں کی تحریک سے 1980ء کی دہائی سے جب کہ سویٹ قبضہ کے خلاف افغانستان نے جنگ کی تھی، جاری ہے۔ افغانستان میں 20,000 سے زیادہ غیرملکیوں نے 10 سال کی مدت میں جنگ میں شرکت کی تھی۔ شام میں 12 ہزار سے زیادہ غیرملکیوں نے صرف 3 سال میں ہتھیار اٹھالئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خانہ جنگی غیرملکی جنگجوؤں کی انتہائی نمایاں تحریک بنتی جارہی ہے جو حالیہ یادداشت میں محفوظ ہے۔
نیومیان نے کہا کہ یہ نمایاں اس لئے ہے کہ افغانستان کی جنگ القاعدہ اور دیگر جہادی نیٹ ورکس کے خلاف تھی۔ شامی خانہ جنگی اب نئے نیٹ ورکس کو جنم دے رہی ہے۔ انہوں نے اعتماد ظاہر کیا کہ غیرملکی جنگجوؤں کی تحریک کے نتیجہ میں آئندہ نسل دہشت گرد حملے کررہی ہوگی۔ نیومیان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے 24 ستمبر کی چوٹی کانفرنس سے قبل مشاورت کی ہے، جس کی صدارت صدر امریکہ براک اوباما کریں گے، یہ چوٹی کانفرنس غیرملکی دہشت گرد جنگـجوؤں اور ان سے لاحق خطرے کے موضوع پر ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف نہیں کیا کہ عسکریت پسندوں گروپ ’’دولت اسلامیہ‘‘ کے خلاف کتنے جنگ کررہے ہیں یا القاعدہ سے مربوط ’’النصرۃ محاذ‘‘ اور دیگر مسلح گروپس جیسے آزاد شامی فوج کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔