شام میں خون ریزی کب ختم ہوگی ؟

میں تو پیتا ہوں روز مئے لیکن
آدمی کا لہو نہیں پیتا
شام میں خون ریزی کب ختم ہوگی ؟
مسلم دنیا کی ذلت و تباہی کا سبب یہ ہے شائد کہ سب کچھ ہو یاد مگر صرف خدا یاد نہیں ۔ شام میں بشارالاسد حکومت نے روسی طاقت سے مل کر اپنے ہی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے میں انسانی قدروں کی تباہی کے تمام حدود کو پار کردیا ہے ۔ شام کے علاقہ مشرقی غوطہ میں گذشتہ چند روز سے اندھا دھند فضائی کارروائیوں میں اب تک سینکڑوں شہری ہلاک ہوئے ہیں ان میں درجنوں بچے بھی شامل ہیں ۔ غوطہ میں جاری بشار الاسد حکومت کی اس اندوہناک کارروائی کی ساری عالمی برادری نے مذمت کی ۔ صدر ترکی رجب طیب اردغان نے شام کی حکومت پر زور دیا کہ وہ فوری اس قتل عام کو بند کردے ۔ باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی غوطہ میں سرکاری افواج اور روسی طیاروں کے حملوں نے تمام علاقہ کو قبرستان میں تبدیل کردیا ہے ۔ ان کارروائیوں کے خلاف اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے قرار داد بھی منظور کی اور ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا ۔ مگر افسوس یہ ہے کہ حکومت شام نے اس جنگ بندی کے نفاذ کے باوجود اپنی کارروائیوں کو جاری رکھا جس میں کئی انسانی جانیں تباہ ہوگئیں ۔ روس کی فوج کی سرپرستی میں شام کی حکومت کی سرکاری افواج نے 18 فروری سے اس کو بمباری کے ذریعہ تباہ کردیا ہے ۔ ایک ایسے علاقہ پر بیرل بم اور شلباری کی گئی جہاں 3 لاکھ سے زائد افراد پھنسے ہوئے تھے ۔ اقوام متحدہ نے ان خون ریز حملوں کو روکنے کے لیے استقدامی اثر کے ساتھ 30 روزہ جنگ بندی کے لیے قرار داد منظور کی لیکن اس معاہدہ کو روکنے والی طاقتوں نے اپنا رول ادا کر کے انسانی جانوں کے اتلاف کا کھلا موقع دینا چاہا ہے تو یہ قابل مذمت رکاوٹ ہے ۔ شام میں فوجی کارروائیوں کو بند کرنے کے لیے زور دینے والی طاقتوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا ہے کہ روس نے درپردہ طور پر جس طرح کی ظلم و زیادتیوں کی سرپرستی جاری رکھی ہے ۔ اس کو روکنے کے لیے اب تک عالمی طاقتوں نے ٹھوس قدم نہیں اٹھائے ۔ اس قتل عام کے لیے روس پر الزام عائد کرنے والے امریکہ نے بھی شام کے شہریوں کے بچاؤ کے لیے کچھ نہیں کیا ہے ۔ اقوام متحدہ کی جنگ بندی قرار داد پر اگر عمل ہوتا ہے تو ان تباہ شدہ شامی علاقوں میں انسانی بنیادوں پر سربراہ کی جانے والی امدادی اشیاء کی تقسیم کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی ۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنی قرار داد کی منظوری میں تاخیر سے کام لے کر شامی حکومت کو شہری علاقوں پر بمباری کرنے کا موقع دیا ۔ اس طرح عالمی ادارہ کی سست روی اور کاہلی نے ساری دنیا کی نظروں کے سامنے اس ادارہ کے اعتبار کو متزلزل کردیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے تعلق سے یہ کہا جائے تو غیرمناسب نہیں ہوگا کہ اس نے دنیا کے سب سے بدترین تباہ کن و خون ریز جنگ کو روکنے کے لیے عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی اور اگر اس نے کوشش بھی کی ہے تو وہ جنگ روکنے سے قاصر رہا ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ عالمی ادارہ اپنے اعتبار و افادیت سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔ شام کی المناک صورتحال اقوام متحدہ کو بھی قبرستان میں تبدیل کردے سکتی ہے ۔ جیسا کہ بعض امن پسند ملکوں کے اہم قائدین کا احساس ہے کہ اقوام متحدہ نے اپنے اختیارات کو بروے کار لانے میں کوتاہی کی ہے اور اس کی یہ کوتاہی اس کی از خود تباہی کا باعث بھی بنے گا۔ اقوام متحدہ کی منظورہ قرار داد کے باوجود اگر شامی افواج اور روس ، شام کے اندر اپنی خون ریز کارروائیوں سے باز نہیں آتے ہیں تو یوں سمجھا جائے گا کہ اقوام متحدہ کی متفقہ طور پر منظورہ قرار داد کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے اور شام میں قتل عام کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ روس کی سرپرستی کے بغیر بشارالاسد حکومت کی فوج اتنی تباہی نہیں لاسکتی ۔ اس لیے امریکہ کو بھی اپنی سفارتی ذمہ داریوں کو بروئے کار لاکر تشدد کو روکنے کے لیے فوری قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے شام کی صورتحال پر آنسو بہائے ہیں اور اس خطہ کی صورتحال کو تباہ کن قرار دیا ہے تو اس پر عالمی طاقتوں کی فوری توجہ ناگزیر بنتے جارہی ہے ۔ مسلسل فضائی حملوں کی وجہ سے یہ علاقہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ جہاں پانی ، غذا اور ایندھن کی سربراہی کم ہوچکی ہے ۔ شہری آبادی اپنی جان بچانے کے لیے زیر زمین سرنگیں کھود کر پناہ لینے پر مجبور ہے ۔ شام کے عوام کو ان کی ہی سرزمین پر زمین دوز کردیا جارہا ہے تو یہ عالمی انسانیت کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ امریکہ نے شام میں امدادی اشیاء سربراہ کرنے والا اہم ملک ہے مگر حکومت شام نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں امدادی اشیاء کی سربراہی کے راستوں کو بند کردیا ہے ۔ 2011 سے جاری اس لڑائی کا اختتام ہی نظر نہیں آرہا ہے ۔ جب شام کا حکمراں از خود اپنے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کررہا ہے تو پھر عالمی سفارتی حدود کو اس نے ختم کردیا ہے اور عالمی امن پیشرفت کی کوششوں کو مسمار کردیا ہے ۔۔