شام ‘ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں

ہمیں خبر ہی نہ تھی نفرتوں کے عالم کی
یہ آگ آپ نے خود ہاتھ سے لگائی ہے
شام ‘ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں
شام کئی برسوں سے جنگ کا شکار ہے جس کے نتیجہ میں یہاں مسلسل تباہی ہوتی جا رہی ہے ۔ لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اتر گئے ہیں۔ لاکھوں افراد زخمی ہوگئے ہیںاور ہزاروں زندگی بھر کیلئے معذور ہوگئے ہیں۔ شام کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بے گھر ہوگیا ہے ۔ لاکھوں افراد دوسرے ممالک میں پناہ گزین کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں تو لاکھوں اپنے ہی وطن میں بے یار و مدد گار بے آسرا مختلف اداروں کی امداد پر زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ شام کے ترقی یافتہ شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہزاروں بچے یہاں ہونے والی درندگی کی منہ بولتی تصویر بن گئے ہیں۔ یہ درندگی کا شکار ہوکر کھلنے سے پہلے ہی مرجھانے لگے ہیں۔ ایسے میں گذشتہ ہفتوں میں جنگ بندی کی کوشش شروع ہوئی تھی ۔ ایک ماہ کی ترغیب کے بعد فریقین نے کچھ حد تک جنگ بندی سے اتفاق بھی کرلیا تھا لیکن اچانک پھر یہاں جنگ بندی کی خلاف ورزیاں شروع ہوگئیں۔ جنگ بندی کی پہلی خلاف ورزی شام میں کسی فریق نے نہیں کی بلکہ بیرونی طاقت نے کی ۔ امریکہ نے یہاںشامی فوج پر بمباری کی اور پھر اسے اتفاقی کارروائی قرار دے کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی ۔ شامی فوج نے بھی اس کے بعد جنگ بندی کو توڑنے کا اعلان کیا اور اس نے حلب میں کارروائی کی اور ایک امدادی قافلہ کو نشانہ بنادیا ۔ خونریزی کا سلسلہ جو کئی برس قبل شروع ہوا تھا وہ اب بھی جاری ہے ۔ جو حکومت میں ہیں اور جو حکومت چاہتے ہیں وہ اپنے محلوں میں اور حفاظتی حصار میں ہیںاور انہیں جنگ کے سرد و گرم کا کوئی اندازہ نہیں ہو رہا ہے ۔ کوئی اقتدار بچانے کیلئے جنگ میں مصروف ہے تو کوئی اقتدار حاصل کرنے کیلئے جنگ کر رہا ہے ۔ جنگ کے اثرات سے دونوں ہی فریق بچے ہوئے ہیں اور کوئی متاثر ہو رہے ہیں تو وہ صرف شامی باشندے ہیں۔ ان کے خلاف انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے ۔ ان کی زندگیاں اجیرن کردی گئی ہیں۔ انہیں دانے دانے کو محتاج کردیا گیا ہے ۔ خوبصورت شہروں کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا گیا ہے ۔ بچے دودھ اور دوا سے تک محروم ہیں۔ ان کے چہروں پر معصوم مسکراہٹوں کی جگہ ایک انتہائی تکلیف دہ خوف اور کرب نے لے لی ہے ۔ یہ انسانیت کی بدترین تصویر ہے ۔
ابھی باضابطہ طور پر جنگ بندی کے خاتمہ کا اعلان نہیں ہوا ہے لیکن خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ اس سلسلہ کو روکنے کی ضرورت ہے تاکہ کچھ سنبھلنے اور حالات کو بہتر بنانے کا موقع مل سکے ۔ امریکہ اور روس یہاں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کا یہ ادعا ہے کہ وہ فریقین کو جنگ بندی کیلئے تیار کر رہے ہیں انہیںبمباری سے روکنے کی ترغیب دی جا رہی ہے ۔ یقینی طور پر بظاہر ایسا کیا بھی جا رہا ہے لیکن یہ بات بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہر بیرونی طاقت کے اپنے کچھ نہ کچھ مفادات اور عزائم ہیں اور ان کیلئے اپنے مفادات کی تکمیل سے زیادہ شام یا شام کے عوام کی بہتری عزیز نہیں ہوسکتی ۔ یہ حقیقت شامی فریقین کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ کوئی اقتدار بچانے کیلئے ملک کو کھنڈر میں تبدیل ہوتا دیکھنا گوارا کر رہا ہے تو کوئی ان ہی کھنڈروں پر اپنے اقتدار کا محل تعمیر کرنے سے گریز کرنے تیار نہیں ہے ۔ ہر کوئی اپنے اپنے مفادا ت کی تکمیل میں جٹا ہوا ہے ۔ امریکہ اور روس کے علاوہ علاقائی ممالک بھی ہیں جو شام کی جنگ میں اپنے مفادات دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس کا شام کے فریقین کو خود اپنے طور پر جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ جب تک فریقین خود اس جنگ سے شام اور شام کے عوام کو ہو رہے نقصانات کا جائزہ نہیں لیں گے اور اس سے بچنے کی کوشش نہیں کرینگے ا س وقت تک بیرونی طاقتیں کتنی بھی کوشش کرلیں اور چاہے کتنی بھی سنجیدگی سے کوشش کرلیں وہ کامیاب نہیں ہوسکتیں ۔کسی بھی کوشش کو کامیاب ہونے کیلئے ضروری ہے کہ شام کے فریقین اس کیلئے تیار ہوجائیں۔ وہ اپنے اقتدار سے زیادہ ملک اور ملک کے عوام کی حالت پر غور کریں تب وہ حقیقی معنوں میں جنگ بند کرنے پر عملا کچھ کرسکتے ہیں۔
جنگ بندی ایک ایسا مرحلہ ہے جس میں اس سے ہونے والے نقصانات ‘ مستقبل پر اس کے اثرات اور شام کے عوام کی حالت کا حقیقی معنوں میں جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔ اس کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ اس سے بچنے کے راستے تلاش کئے جاسکتے ہیں۔ اس کو دیرپا اور مستقبل بنانے کے امکانات پر غور کیا جاسکتا ہے ۔ بیرونی طاقتیں یقینی طور پر فریقین کو ایک مقام تک لانے میں اور ان کی سوچ کو بدلنے میں اثر انداز ہوسکتی ہیں لیکن سارا کچھ بیرونی طاقتوں کے سپرد کرکے خود جنگ میں مصروف رہنا شام کے فریقین کیلئے درست نہیں ہے ۔ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو بند کرنا ہوگا ۔ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں جنگ کے خاتمہ اور امن کے قیام کیلئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور اس کوشش میں ہر فریق کو مدد کرنی چاہئے ۔