شام: انسانیت سوزمظالم کی المناک داستان

ملک شام کی تباہی کی خبریں میڈیا کے ذریعہ عالم کے گوشہ گوشہ میں پہنچ رہی ہیں،شام کی صورتحال ساری دنیا پر روزروشن کی طرح عیاں ہے،شام کا ایک علاقہ’’ حلب‘‘ کی سرزمین تواس وقت مسلمانوں کے خون سے لالہ زارہے،بشارالاسدکی حکومت روس وایران کی مددسے بم وبارودکا کھیل ،کھیل رہی ہے۔عصری جنگی آلات حرب نہتوں اورکمزورں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں،عوام موت وزیست کی جنگ لڑرہے ہیں،زخمی عوام کراہ رہے ہیں انکے علاج ومعالجہ کے کوئی وسائل نہیں،انسانیت دشمن ظالموں کے ان مظالم سے نہ معصوم بچے محفوظ ہیں نہ مردوخواتین ،خواہ وہ نوجوان ہوں کہ بوڑھے سب کے سب مصائب وآلام کا شکارہیں،روتے بلکتے دم توڑتے انسانوں کا کوئی ہمدردوغمگسارنہیں ۔فوج کے درندے عفت مآب مسلم خواتین کی عفت وعصمت پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں،ایک تخمینی تجزیہ کے مطابق جرم بے گناہی کی سزامیں شہیدہونے والوں کی تعدادتین لاکھ سے بھی متجاوز ہے،ان میں معصوم بچے بھی شامل ہیں ،جن کا تخمیہ سولہ ہزارسے کیا گیاہے،بمباری میں شہیدہونے والوں کے علاوہ خودشامی حکومت کی تحویل میں تقریبا سترہ ہزارسات سوسے زیادہ شامی باشندوں کے سرکاری افواج کی اذیت رسانی سے شہیدہونے کی اطلاع ہے ،ایک اخباری اطلاع کے مطابق جیل خانوں میں محبوس ناکردہ جرم کی سزامیں تخمینی ساٹھ ہزارسے زائدافرادغیرانسانی درندگی کا شکارہوکرزندگی ہارچکے ہیں، کہیں بم یا مزائیل گرتا ہے توآن کی آن میں انسانی بستیاں خون میں نہائی ہوئی نعشوں کے قبرستان کامنظر پیش کرتی ہیں،شہرکے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں، جوزندہ بچ جا تے ہیںوہ بم اندازی کے زہریلے اثرات سے زخم خردہ نا قابل بیان دردوکرب کے شدیدامتحان سے گزرتے ہوئے علاج ومعالجہ کی سہولت سے استفادہ کے بغیرموت کی دہلیزتک پہونچ جاتے ہیں ۔کتنے ہی بچے یتیم ویسیر ماں باپ کی محبت وشفقت کی چھاؤں سے محروم اوراس درندگی کے ماحول میں غیرانسانی سلوک کے دکھ ودرد سہنے پرمجبورہیں۔زندگی کے خوشگوارسفرکا راستہ مسدودہوگیاہے،پچاس لاکھ سے زائد شامی افرادکے ہجرت کرنے کی اطلاع ہے،ذرائع ابلاغ کے مطابق اردن،عراق،مصراوریورپ میں لاکھوں کی تعدادمیں وہ شامی باشندے پناہ حاصل کئے ہوئے ہیں جوموت کے ننگے ناچ کے خوفناک مناظراشکبارآنکھوں میں سموئے ہوئے زندگی کی بقاء کیلئے جدوجہدکرتے ملک شام سے رخت سفرباندھ چکے ہیں،حال ہی میں روس کے سفیر’’اینڈریوکارلوس ‘‘پرترکی میں ایک پولیس ملازم نے گولی چلادی جسکی وجہ موت واقع ہوگئی ،ظاہرہے یہ بہت بڑاظلم ہے ایک انسان وہ بھی سفیرکا قتل اسلامی نقطہ نظرسے بہت بڑاجرم ہے ،اس قتل اوراس طرح کی قتل کی وارداتیں دنیا کے کسی حصہ میں ہوں ساری دنیا میں واویلا مچ جاتا ہے،سخت مذمت اوراحتجاج کا سلسلہ چل پڑتا ہے ،روس اوراس طرح دیگرظالمانہ کاروائیاں جاری رکھنے والے ملکوں کویقین کرلینا چاہیے کہ انکے ظالمانہ ودہشت گردانہ کھیل کے خلاف کمزورمظلوموں کی طرف سے گویا ایک جوابی وارہے،اس سے متنبہ ہوکرظلم کا رویہ ترک کر دینا چاہیے ورنہ یہ جوابی حملے ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘کے مصداق اورزیادہ ہوسکتے ہیں۔ پھر بھی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سفیرمحترم کے قتل پراحتجاج یقینا ایک قابل ستائش اقدام ہے ۔اس سے محسوس ہوتا ہے کہ انسانی سینوں میں انسانیت کے رمق زندہ ہے جوانکوانسانیت سے ہمدردی اورتعلق خاطرپر مجبورکررہی ہے،لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ امریکہ ،روس اورایران وغیرہ جیسے ممالک جوانسانیت کی دہائی دیکرہمدردی کے اظہارمیں آگے آگے رہتے ہیں وہ کیوں مسلم ممالک میں قتل وخون کا بازارگرم کئے ہوئے ہیں؟اربوں کھربوں انسانوں کی جان لینے یا انکے گھربارکو تباہ وتاراج کردینے ،انکے ذرائع معیشت کوبرباد کرکے بے یارومددگارکردینے، معصوم نہتے شہریوں کو موت وزیست کی کشمکش میں مبتلاء کردینے کا کھیل کھیلتے ہوئے کیوں انکے دلوں پر مردگی چھاجاتی ہے؟اورکیوں وہ انسانیت کے قتل وخون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کئے ہوئے چین وسکون کی نیندلے رہے ہیں ؟مسلم ممالک کوتباہی کے دہانے پرپہونچانے کیلئے اسلام دشمن طاقتوں نے ایک حکمت عملی تیارکی ہے اس حکمت عملی کو انہوں نے’’ انسداددہشت گردی اورقیام امن ‘‘ کا خوبصورت عنوان دیاہے،طرفہ تماشہ یہ کہ اس خوبصورت عنوان کے زیرسایہ خوددہشت گردی وغارت گری امن کا کھیل کھیلا جا رہاہے۔اسلئے دنیا بھرمیں جہاں بھی مسلم ممالک یا مسلمان ظلم وستم کی بھٹی میں جھونک دئے جاتے ہیں تب ان مصنوعی داعیان ِانسداددہشت گردی وقیام امن کے کارپردا زوں کی قلعی کھل جاتی ہے ،اوراس راز سے پردہ ہٹ جاتا ہے کہ آخر انکی زبانیں گُنگ کیوں ہوجاتی ہیں؟ مادی آلات حرب سے لیس ان چندانسان دشمن بلکہ اسلام دشمن طاقتوں کو چھوڑکرسارے عالم میں انسان دوست تمام انسان اس صورتحال سے سخت دکھی ہیں،انکی آنکھیں اشکبارہیں،دردوکرب سے انکے سینے چھلنی ہیں، اپنے اس دردوکرب کا زبان سے اظہار کرتے ہوئے ، بربریت ودرندگی کی مذمت کررہے ہیں لیکن دفاعی مادی اسباب ووسائل سے محرومی کی وجہ انسان نما درنددوں سے ان مظلوم بھائیوں کوبچانے کی کوئی موثرتدبیر کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ہاں! البتہ طاقتورحکومتوں سے ملتمس ہیں کہ وہ اس جنگی کھیل کو بندکریں۔انسداد دہشت گردی کا مصنوعی لبادہ اتارکر دہشت گردی کا خاتمہ کرکے دنیا میں امن آمان کو یقینی بنائیں۔ مسلم ممالک کے حکمراں طبقہ سے یہ سوال کررہے ہیں کہ شام حلب و یمن اوردیگرمسلم ملکوں میں ڈھائے جانے مظالم کے خلاف انکے ہاں کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے اورایسی کیا حکمت عملی انہوں نے اختیارکی ہے کہ جسکی وجہ وہ دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ظالموں سے پنجہ آزمائی کر سکیں۔ کیونکہ عالمی سطح پر مسلمانوں سے برتے جانے والے غیرانسانی رویوں نے ظلم کی ایک تاریخ رقم کی ہے۔ظاہرہے مسلم حکمرانوں کے سینوں میں بھی انسانی دل ہے وہ بھی غیرانسانی سلوک سے متاثرہونگے انکے دل بھی خون کے آنسو رورہے ہونگے لیکن اپنے بھائیوں کی مددکرنے اورمظلوموں کا ساتھ دیکرظالموں کے منصوبوں کوخاک میں ملانے کی طاقت نہیں رکھتے،انکی بے بسی ومجبوری بھی قابل رحم ہے، دولت کے نشہ میں مقصدزندگی کو بھلاکر عیش وآرام میں کھو جانے کی وجہ وہ دفاعی منصوبہ بندی سے مجرمانہ غفلت کا  شکار ہوگئے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ وہ اورمسلم مظلوم بھائیوں کی مدد توکیا کرتے خود ان پر ہونے والے وارکا دفاع کرنے سے بھی قاصرہیں۔ اسلام نے ہمیشہ دفاعی پوزیشن کو مضبوط رکھنے کی ہدایت دی ہے ۔ارشادباری ہے’’تم انکے مقابلہ کے لئے اپنی طاقت بھرقوت کی تیاری کرو،اورگھوڑوں کی تیاری رکھوکہ اس سے تم اللہ کے اوراپنے دشمنوں کو خوفزدہ رکھ سکو اورانکے سوااوروں کو بھی ،جنہیں تم نہیں جانتے اللہ تعالی انکو خوب جانتا ہے ‘‘۔(الانفال ؍۶۰)اُس دورکے جوجنگی اسباب تھے ان میں تیراندازی وغیرہ ایک جنگی ہتھیارتھا ،اسی طرح گھوڑے وغیرہ بھی جنگی ضرورت کے سامان تھے ،لیکن اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں موجودہ دورکے آلات حرب میں میزائیل ،ٹینک،بم ،جنگی بری وبحری جہازوغیرہ ہیں جن سے لیس رہنا اسلئے ضروری ہے کہ آیت پاک میں ذکرکردہ مقاصدمسلمانوں کو حاصل ہوسکیں۔اسلام نے اللہ پر توکل واعتمادکی تعلیم دی ہے لیکن اس سے مقصودظاہری اسباب ووسائل سے بے اعتنائی برتنا نہیں ہے بلکہ اسباب اختیارکئے جاکرنتیجہ کو اللہ کے سپر دکرناہے جو حقیقی معنی میں توکل ہے ۔آیت پاک میں’’مااستطعتم‘‘فرما یا گیا ہے جس سے مقصوداپنی بساط کے مطابق تیاری ہے،ضروری نہیں کہ دشمن جتنے ہتھیار اورجیسی تیاری سے لیس ہے مسلمان بھی اتنی ہی تیاری رکھیں ،تعمیل حکم میں بقدراستطاعت سامان دفاع تیاررکھنے سے اللہ سبحانہ کی مددونصرت شامل حال ہوجاتی ہے،پھر مقدوربھرکوشش کرکے آلات حرب کی تیاری سے مقصود نارواقتل وقتال کرنا یا بے قصوروں پر ظلم ڈھانا نہیں ہے بلکہ اللہ کے منکروں کو زیرکرنا اور دشمن ظالموں کو مرعوب ومغلوب کرنا اورمظلوم انسانیت کی مددکرناہے ،دفاعی موقف کو مضبوط نہ رکھنے کی مجرمانہ غفلت کی وجہ بعض مسلم ممالک دشمن طاقتوں کے آلہ کار بننے پرمجبورہوگئے ہیں،دشمن اپنی مرضی کے مطابق انکو استعمال کررہے ہیں ،مسلم حکمرانوں کو جان لینا چا ہیے کہ دشمن کے ہاتھوں کھلونہ بن کر مجبورا ہی سہی اسکی چاہت کے مطابق مظلوموں کے خلاف ان ظالموں کی مددواعانت کرنا ایمان کے منا فی ہے،حدیث پاک میں واردہے’’من مشی مع ظالم لیقویہ وہویعلم انہ ظالم فقدخرج من الاسلام ‘‘۔  اخرجہ الطبرانی  فی’’الکبیر‘‘ظالموں کو بھی اسلام نے پیغام دیا ہے کہ وہ ظلم سے دست بردارہوجائیں ،انکا ایک ظلم تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خالق ومالک کو نہیں مانا اوراپنے اس عظیم محسن کے احسان کو فراموش کرکے کفروشرک کی روش اختیارکی،یا منسوخ مذاہب یہودیت یا نصرانیت پر جمے رہے ،نبی رحمت سیدنا محمدرسو ل اللہ َﷺ کی بعثت مبارکہ کے بعد سابقہ سارے ادیان منسوخ ہوچکے ہیں اسلئے دنیا بھرمیں باطل مذاہب پر کا ربندافرادکو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے ،اسی میں انکی دنیا وی منفعت اوراخروی کامیابی کا رازمضمرہے۔کائنا ت کے خالق ومالک کواوراسکے احکام کونہ مان کربعض باطل مذاہب پر کاربندحکمران اورکچھ افراد نے بے قصورعوام پر ظلم ڈھانے کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ظلم کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشادہے’’الظلم ظلمات یوم القیامۃ ‘‘(اخرجہ البخاری ومسلم والترمذی عن عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہما) ظلم ڈھانا قیامت کے دن تاریکیوں کا باعث بنے گا یعنی میدان حشرمیں تاریکیاں انکو گھیرے ہوئے ہونگی ،باطل مذاہب پر کاربندہونے کی تاریکیوں کے ساتھ ظلم کرنے والے مزیدتاریکیوں میں ہونگے،بعض شارحین نے ان تاریکیوں کے ساتھ انکا جہنم کے سخت ترین عذاب میں مبتلاء ہونا مراد لیا ہے۔      عالمی حالات کے تناظرمیں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس وقت اسلام اورمسلمان نشانہ پر ہیں،مسلم ممالک کا دائرہ تنگ کیا جارہاہے ،کرئہ ارض پر تقریبا اکا ون(۵۱) ممالک سے زیادہ وہ ملک ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن پھربھی وہ زندگی کے دوڑمیں منصوبہ بندی کے ساتھ پیچھے کردئے گئے ہیں۔مسلم دشمن طاقتیں چاہتی یہی ہیں کہ مسلمانوں کی معیشت ومعاشرت کو تباہ وبرباد کیاجائے اگرزندہ رہنا ہے تو مسلم دشمن طاقتوں سے زندگی کی بھیک مانگ کر زندہ رہا جائے ۔(العیاذ باللہ)اللہ سبحانہ سب کو فہم سلیم نصیب فرما ئے اوراس دنیا میں ظلم کا خاتمہ فرماکرامن وآمان قائم فرمائے اور اخروی کامیابی سرفرازفرمائے۔آمین