شامی فوج اور دولت اسلامیہ کی جھڑپیں ‘73ہلاک

دولت اسلامیہ کے آخری مستحکم گڑھ دیرالزور پر بھی حکومت کا قبضہ بحال
بیروت ۔ 29اکٹوبر ( سیاست ڈاٹ کام ) شام کی فوج اور دولت اسلامیہ کے درمیان شہر دیرالزور میں جھڑپوں کے نتیجہ میں گذشتہ 24 گھنٹے کے دوران کم از کم 73 جنگجو ہلاک ہوگئے ۔ شام کی فوج نے شہر دیرالزور کے بیشتر علاقہ پر قبضہ کرلیا ۔یہ شہر صوبہ دیرالزور کا دارالحکومت تھا اور ملک کے مشرقی حصہ میں واقع تھا ۔ دولت اسلامیہ کے ایک حملہ کے جواب میں جس کا آغاز کل ہوا تھا فوج نے مزید پیشقدمی کی ۔ برطانیہ کی شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق کے بموجب خوفناک لڑائی سے ہفتہ کے دن کم از کم 50 دولت اسلامیہ جنگجو ہلاک ہوئے تھے ‘ جب کہ 23شامی فوجی اور حکومت حامی عسکریت پسند ہلاک ہوگئے ۔ رصدگاہ کے ڈائرکٹر رامی عبدالرحمن نے کہا کہ حکومت نے دو نئے مضافاتی علاقوں اور بلدیہ کے اسٹیڈیم پر قبضہ کرلیا ہے ۔ دولت اسلامیہ اب اس علاقہ کے اطراف پھیلی ہوئی ہے ۔ شہر اور دریائے فرات کے درمیانی علاقہ پر اس کا قبضہ ہے ۔ دولت اسلامیہ کبھی شہر دیرالزور کے وسیع حصہ پر قابض تھی‘ تقریباً تین سال سے اس شہر کا سرکاری فوج محاصرہ کئے ہوئے تھی ۔ آخر کار اسے حکومت کے قبضہ میں لے لیا گیا ۔

ستمبر کے اوائل میں سرکاری فوج نے پیشرفت کرتے ہوئے محاصرہ توڑ دیا تھا اور جہادیوں کے شہر کے باقی علاقوں سے اخراج کیلئے کوشش کررہے تھے ۔ عبدالرحمن نے کہا کہ جنگ کا آغاز کل ہوا ‘ جب کہ سرکاری فوجوں نے خوفناک ترین شہر کا محاصرہ توڑ دیا ۔ سرکاری فوج کے ساتھ دولت اسلامیہ کی جھڑپیں اتوار کو بھی جاری ہیں ۔ سرکاری فوج کے حلیف ملک روس نے زبردست فضائی حملے کرتے ہوئے فوج اور اس کے حلیف جنگجوؤں کی مدد کی ۔ دیرالزور تیل کی دولت سے مالا مال صوبہ ہے جو عراق کی سرحد پر واقع ہے ‘ کبھی یہ دولت اسلامیہ کا مستحکم گڑھ تھا لیکن جہادی گروپ کو دو طرفہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ایک سرکاری فوج کے حملے اور دوسرے امریکی حمایت یافتہ کرد عرب شامی جمہوری افواج کے حملے ‘ جہادی پہلے ہی پڑوسی صوبہ رقہ کا تخلیہ کرچکے ہیں اور اب دیرالزور کے چند علاقوں پر قابض ہیں ۔ تین لاکھ تیس ہزار سے زیادہ افراد شام میں مارچ 2011ء میں خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک حکومت حامی اور مخالف جنگجوؤں میں جھڑپ کے دوران ہلاک ہوچکے ہیں ۔