شامی باغی اور جہادی جنگی جرائم کے مرتکب : ایمنسٹی رپورٹ

مغویہ افراد کو اذیتیں دی جاتی ہیں، عوام اغواء ہونے کے خوف میں مبتلاء
بیروت ۔ 5 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک ایسی رپورٹ تیار کی ہے جس میں انہوں نے ملک شام میں اسلامی باغیوں اور جہادیوں کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا ہے۔ اس سلسلہ میں لندن سے اپنی سرگرمیاں چلانے والی دائیں بازو کے اس گروپ نے شمالی شام میں سرگرم پانچ تنظیموں کانام پیش کیا ہے جن میں القاعدہ سے ملحقہ النصرہ فرنٹ، سخت گیر احرار شام، نورالدین زنکی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس گروپ نے وکلاء، صحافیوں اور بچوں کو اپنی قید کے دوران سخت اذیتیں پہنچائیں۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے ان گروپس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ آج صورتحال یہ ہیکہ متعدد شہری اسی خوف کے عالم میں زندگی گذار رہے ہیں کہ انہیں کسی بھی وقت اغواء کیا جاسکتا ہے۔ ایمنسٹی کے مشرق وسطیٰ اور شمال افریقہ کے پروگرام سربراہ فلپ لوتھر نے یہ بات بتائی۔ انہوں نے کہا ادلیب اور حلب میں جنگی جرائم کے مرتکب افراد کھلے عام بین الاقوامی انسانی قوانین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں جس کیلئے وہ کسی بھی قسم کے پس و پیش کا شکار ہیں۔ رپورٹ میں 2012ء تا 2016ء کے دوران اغواء کے 24 واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے جبکہ اذیت رسانی کے پانچ معاملات کا تفصیلی احوال موجود ہے۔ مثال کے طور پر انسانی حقوق پر کام کرنے والے ایک ورکر حلیم پر اغواء کرنے کے بعد نورالدین زنکی کے باغیوں نے اذیتوں کا پہاڑ توڑ دیا۔ یہ واقعہ حلب میں رونما ہوا۔ حلیم کو اس وقت تک زدوکوب کیا جاتا رہا اور تکلیفیں دی جاتی رہیں جب تک اس نے ’’اپنے جرم‘‘ کا اعتراف نہیں کرلیا۔ حلیم نے کہا کہ اس نے جب ایک اقرار نامہ پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تو سوال پوچھنے والے اپنے دیگر ساتھیوں کو حکم دیا کہ مجھے اذیتیں دی جائیں ۔ کیبل وائرس سے اس کے تلوؤں کو پیٹا جانے لگا۔ تکلیف اتنی شدید تھی کہ میں برداشت نہیں کرسکا اور کاغذات پر دستخط کردیئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہیکہ رپورٹ میں ان باتوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے

جہاں جہادیوں اور سخت گیروں نے خود اپنی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں جہاں وہ سنگین جرائم جیسے ناجائز تعلقات کیلئے سزائے موت دیتے ہیں۔ اسی طرح صالح نامی ایک شخص کو النصرہ فرنٹ نے 2014ء میں اغواء کیا تھا اور اسے اس کے گارڈ نے بتایا کہ پانچ خواتین جنہوں نے ’’ناجائز تعلقات‘‘ قائم کرتے ہوئے گناہ عظیم کیا ہے، ان کی نجات صرف سزائے موت ہے۔ صالح نے بتایا کہ بعدازاں اس نے سزائے موت دیئے جانے کا ایک ویڈیو دیکھا جس میں ایک خاتون کا سر قلم کیا جارہا تھا۔ یاد رہے کہ شام میں خانہ جنگی کا آغاز مارچ 2011ء میں ہوا جہاں حکومت مخالف احتجاج کئے گئے تھے۔ تاہم حالات دن بہ دن خراب ہوتے گئے اور اس طرح احتجاج خانہ جنگی میں تبدیل ہوگیا اور آج حالت یہ ہیکہ اب تک 280,000 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بشارالاسد اور اسد مخالف گروپ دونوں کو ذمہ دار قرار دیا ہے جو حملوں اور اذیتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عالمی طاقتوں سے اپیل کی ہیکہ وہ مسلم گروپس پر دباؤ ڈالتے ہوئے تشدد کے اس سلسلہ کو روکیں اور انہیں ہدایت کریں کہ وہ جنگ کے قوانین کی پاسداری کریں۔