2011ء میں شروع ہوئی تحریک میں اب تک ڈھائی لاکھ افراد ہلاک
طرابلس ۔ 29 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) شام میں صدر بشار الاسد کی مخالف تنظیموں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد نے ملک میں جاری تنازعہ کے سیاسی حل کے لیے جمعہ سے سوئٹزرلینڈ میں شروع ہونے والے مذاکرات میں شرکت نہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے نمائندے اس وقت تک جینیوا نہیں جائیں گے جب تک ان شامی شہریوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا جو محصور ہیں یا بمباری کی زد میں ہیں۔ تاہم اس کے باوجود اقوام متحدہ کے ایلچی سٹافن ڈی میستورا شام کی حکومت کے ساتھ براہ راست قربت بڑھانے کے لیے‘ بات چیت کا عمل شروع کرنے کی تیاری میں ہیں۔ ان مذاکرات کی ترجیحات میں جنگ بندی،انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی اور خود کو دولتِ اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم کو روکناشامل ہیں۔ شام کے صدر بشار الاسد نے اپنا وفد جینیوا بھیجنے پر اتفاق کیا ہے لیکن سعودی عرب کی حمایت یافتہ مذاکراتی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ اس کے نمائندے یقینی طور پر وہاں نہیں ہوں گے۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں جمعرات کو ایک اجلاس کے بعد کمیٹی نے شکایت کی کہ اس نے حکومتی افواج کی جانب سے ناکہ بندی ختم کرنے اور فضائی حملے بند کرنے کا جو مطالبہ کیا تھا اس کے لیے اسے مناسب جواب نہیں ملا ہے۔ کمیٹی کے صدر ریاض حجاب نے بتایا کہ ’ کل ہم جینیوا میں نہیں ہوں گے۔
ہم وہاں جا سکتے ہیں لیکن جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے اس وقت تک ہم مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے۔‘ اس سے قبل اقوام متحدہ کے نمائندے نے شام کی عوام کے لیے ایک ویڈیو پیغام بھیجا تھا جس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ بات چیت ناکام نہیں ہونی چاہیے۔ اس میں کہا گیا تھا ’اب ہم آپ کی آواز سننا چاہتے ہیں، ہر اس شخص کی جو اس کانفرنس میں آرہا ہے اور کہہ رہا ہوں کہ یہ کانفرنس ایک ایسا موقع ہونا چاہیے جسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔‘ شام کے مسئلے پر آخری بار بات چیت فروری 2014 میں دوسرے مرحلے میں ہی ناکام ہوگئی تھی اور اس کے لیے اقوام متحدہ نے شام کی حکومت کو اس لیے ذمہ دار ٹھہرایا تھا کیونکہ اس نے اپوزیشن کے اس مطالبے پر بات چیت سے انکار کر دیا تھا جس میں صدر بشار الاسد کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ امریکہ اور روس نے داعش کی بڑھتے قدم کے پیش نظر دوبارہ فریقین کو مذاکرات کے لیے راضی کیا ہے۔ حکومت سے قربت بڑھانے کی غرض سے ہونے والی یہ بات چیت تقریبا چھ ماہ تک چلے گی اور مذاکرات کے درمیان مختلف گروہ آمنے سامنے بیٹھنے کے بجائے مختلف کمروں میں ہوں گے جن سے اقوام متحدہ کے اراکین روابط رکھیں گے۔ ان مذاکرات کا قطعی مقصد اقوام متحد کی گذشتہ ماہ کی قرارداد کے مطابق معاملے کا پر امن حل ہے جس میں انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی کا عمل بھی شامل ہے۔ گذشتہ ماہ ہی شامی حکومت نے کہا تھا کہ وہ ملک میں جاری شورش کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے۔ واضح رہے کہ 2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے بعد لڑائی میں اب تک ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔