شادی مبارک اسکیم کے شرائط کی تکمیل ناممکن

حیدرآباد۔7۔ اکتوبر (سیاست نیوز) غریب اقلیتی لڑکیوں کی شادی کیلئے تلنگانہ حکومت کی جانب سے 51 ہزار روپئے کی امداد پر مشتمل شادی مبارک اسکیم پر عمل آوری کا 2 اکتوبر سے آغاز ہوچکا ہے۔ تاہم محکمہ اقلیتی بہبود کو اسکیم پر عمل آوری میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ حکومت نے ایس سی ، ایس ٹی طبقات سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کیلئے شادی کے موقع پر کلیان لکشمی اسکیم کے ذریعہ امداد کا اعلان کیا ہے جبکہ اقلیتوں کیلئے اعلان کردہ شادی مبارک اسکیم کیلئے جو شرائط و قواعد طئے کئے گئے ہیں، ان کی تکمیل ایک عام غریب خاندان کیلئے ممکن نہیں۔ کئی سرٹیفکٹس پیش کرنا اور پھر شادی کی تکمیل کے بعد امداد کے حصول جیسی شرائط پر مختلف گوشوں سے اعتراضات کئے گئے ہیں۔ حکومت اگرچہ جاریہ مالیاتی سال کی تکمیل یعنی چار ماہ میں تقریباً 40 ہزار شادیوں کا منصوبہ رکھتی ہے لیکن ابھی تک اس اسکیم کیلئے درکار بجٹ جاری نہیں کیا گیا۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیدار شرائط میں تبدیلی کیلئے حکومت سے رجوع ہوئے ہیں۔ اس اسکیم کیلئے آن لائین درخواستیں داخل کرنے کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور موجودہ شرائط کے مطابق شادی کی تکمیل کے بعد ضروری اسنادات کے ساتھ درخواست داخل کی جاسکتی ہے۔ حکومت نے اسکیم سے استفادہ کیلئے لفظ اقلیت کا استعمال کیا ہے

جس کے تحت مسلمانوں کے علاوہ عیسائی ، سکھ ، جین اور بدھسٹ بھی آتے ہیں۔ جی او میں اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ ان مذاہب سے تعلق رکھنے والے معاشی طور پر کمزور خاندان کس طرح استفادہ کریں گے۔ ان مذاہب میں بعض گروپس کا شمار فارورڈ کلاس میں ہوتا ہے لیکن ان میں بھی کئی غریب خاندان ہیں۔ حکومت کو اس بات کی وضاحت کرنی ہوگی کہ آیا معاشی پسماندگی سے متعلق سرٹیفکٹ کی پیشکشی کافی ہوگی؟ مختلف اقلیتی تنظیموں کی جانب سے اس سلسلہ میں حکومت سے نمائندگی کی گئی ہے کہ اسکیم پر عمل آوری کی شرائط میں نرمی پیدا کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ غریب خاندان اسکیم سے فائدہ اٹھاسکیں۔ آن لائین درخواستوں کے ادخال کے وقت دو آپشنس رکھنے کی تجویز ہے۔ ایک شادی سے قبل اور دوسرا شادی کے بعد درخواست سے متعلق ہوگا۔ چونکہ آدھار کی کارڈ کی پیشکشی کو لازمی قرار دیا گیا ہے لہذا اسکیم میں کسی بھی بے قاعدگی سے بچنے اور شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے فنگر پرنٹ کے حصول کی بھی تجویز ہے۔ اس اسکیم کا مقصد غریب خاندانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کیلئے مدد کرنا ہے۔

عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اکثر نوجوان 51 ہزار پر مشتمل حکومت کی امداد کی امید میں شادی کیلئے راضی ہوں گے اور اگر شادی کے بعد حکومت سے امداد منظور نہ ہوں تب مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ لہذا تجویز پیش کی گئی ہے کہ بجٹ کی موجودگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے درخواستوں کی یکسوئی کی جائے تاکہ تمام منظورہ درخواستوں کیلئے امدادی رقم جاری کی جاسکے۔ اسکیم کے اعلان کے ساتھ ہی غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد اقلیتی بہبود کے دفاتر سے رجوع ہو رہے ہیں لیکن انہیں مایوسی کا سامنا ہے کیونکہ حکومت نے ابھی تک شرائط میں ترمیم کو قطعیت نہیں دی۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسکیم کیلئے بجٹ کی عدم اجرائی کے سبب وہ درخواستیں قبول کرنے سے قاصر ہیں۔