غریب خاندانوں کیلئے عزت نفس کا مسئلہ، حکومت کو غوروفکر کی ضرورت
حیدرآباد ۔ 5 ڈسمبر (سیاست نیوز) ریاست کی تقسیم کیلئے جدوجہد کے دوران علحدہ ریاست تلنگانہ کا مطالبہ کرنے والوں کی جانب سے مسلسل یہ کہا جاتا رہا کہ علحدہ ریاست تلنگانہ عوام کی عزت نفس کا معاملہ ہے لیکن ریاست تلنگانہ میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد حکومت تلنگانہ جو کہ علحدہ ریاست کی جدوجہد کو عروج پر پہنچانے والی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی زیرقیادت ہے۔ حکومت کو شاید غریب عوام کی عزت نفس کا احساس اقتدار حاصل ہونے کے بعد ختم ہوچکا ہے اسی لئے سرکاری اسکیمات میں ایسے شرائط لازمی طور پر شامل کئے جارہے ہیں جو کہ غریب عوام کی عزت نفس سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔ حکومت تلنگانہ نے ریاست تلنگانہ میں موجود غریب لڑکیوں کی شادی کیلئے 51 ہزار روپئے جاری کرنے کی اسکیم کا آغاز کرتے ہوئے جو مستحسن اقدام کیا اس اقدام کا ہر گوشہ کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا لیکن اس اسکیم میں جو شرائط رکھی گئی ہے وہ ایک عزت دار غریب خاندان کیلئے پورا کرنا دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے ’’شادی مبارک‘‘ اسکیم میں جو شرائط رکھی گئی ہیں ان میں ایک ایسی شرط ہے جو لڑکی والوں کی جانب سے پوری کیا جانا ناممکنات میں سے ہے۔ حکومت تلنگانہ نے بجٹ اجلاس کے دوران اس بات کا اعلان کیا ہیکہ غریب لڑکیوں کی شادی میں 51 ہزار روپئے سرکاری امداد کی اجرائی کیلئے 100 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں اور مارچ 2015ء کے اختتام یعنی آئندہ مالی سال کے آغاز سے قبل حکومت تلنگانہ نے ریاست میں 20 ہزار لڑکیوں تک اس اسکیم کو پہنچانے کا نشانہ مقرر کیا ہے لیکن سرکاری گوشوں بالخصوص محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب شادی مبارک اسکیم میں درخواستوں کی عدم وصولی کی شکایات معمول بن چکی ہے اور حکومت کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے اسکیم کے متعلق شعور بیداری مہم چلانے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ اگر ریاستی حکومت اسکیم میں شامل شرائط کا بغور مشاہدہ کرتے ہوئے اگر بعض شرائط سے استثنیٰ فراہم کرتی ہے تو ایسی صورت میں اسکیم کے استفادہ کنندگان کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوسکتا ہے چونکہ شرائط میں ایک ایسی شرط ہے جس کے تحت لڑکی کے آدھار کارڈ کے علاوہ جس لڑکے سے نکاح ہونے جارہا ہے اس کے آدھار کارڈ کی نقولات بھی پیش کرنی ہیں۔ پرانے شہر کے بیشتر درخواست گذار جوکہ شادی مبارک اسکیم درخواستیں داخل کرنے کے متعلق منصوبہ بندی کررہے ہیں لیکن جیسے ہی اس شرط کے بارے میں انہیں پتہ چل رہا ہے وہ یہ کہتے ہوئے اسکیم کے استفادہ سے انکار کررہے ہیں کہ وہ کس طرح لڑکے یا لڑکے کے گھر والوں سے لڑکے کے آدھار کارڈ، صداقتنامہ پیدائش و تعلیمی صداقتنامہ طلب کریں۔ غریب عوام جوکہ بسااوقات بحالت مجبوری امداد کے حصول کیلئے لڑکی کا نکاح انجام دیتے ہیں لیکن ان حالات کے باوجود وہ لڑکے والوں پر یہ ظاہر ہونے نہیں دیتے کہ وہ معاشی پریشانیوں میں مبتلا ہوتے ہوئے یہ نکاح کررہے ہیں۔ حکومت بالخصوص کابینہ میں شامل وزراء کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ جس طرح تلنگانہ عوام کو اپنی عزت نفس کے خاطر علحدہ ریاست کی ضرورت تھی اسی طرح لڑکی کے خاندان والوں کی بھی اپنی عزت نفس ہوتی ہے اور اسے برقرار رکھنے کیلئے اس شرط کو منسوخ کیا جانا چاہئے۔