٭ مظلوم خواتین کی مدد کیلئے وقف بورڈ میں قانونی امداد سیل قائم کرنے کی تجویز
٭ عائلی جھگڑوں کو ختم کرنے کونسلنگ سنٹرکا بھی منصوبہ : عمر جلیل اسپیشل سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود
حیدرآباد ۔ 11 جنوری ۔ ہندوستان بالخصوص ہماری ریاست کے مسلم معاشرہ میں طلاق و خلع کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے جو مسلمانوں کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ان واقعات کا افسوسناک پہلو یہ ہیکہ میاں بیوی کے جھگڑوں اور مسائل کو شریعت کے مطابق حل کرنے کی بجائے ہم اپنی ہی شریعت پر عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں اور عائلی جھگڑوں کو سیکولر عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے اور یہ عمل مسلمانوں کیلئے بڑی بدبختی کی بات ہے۔ مسلم معاشرہ کو اس بدبختی، شرعی قوانین کی بے حرمتی کے گناہ سے بچانے کیلئے ریاستی وقف بورڈ میں دارالقضاء کی طرز پر ایک ایسا سنٹر قائم کیا جائے جو مظلوم خواتین کو دادرس کرتے ہوئے انہیں فوری انصاف دلائے۔ ان خیالات کا اظہار ریاستی محکمہ اقلیتی بہبود کے اسپیشل سکریٹری جناب عمر جلیل آئی اے ایس نے کیا۔ وہ صدائے حق شرعی کونسل حیدرآباد کے زیراہتمام مدینہ ایجوکیشن سنٹر نامپلی میں منعقدہ خصوصی اجلاس سے خطاب کررہے تھے، جس کا عنوان ’’اگر شوہر خلع پر رضامند نہ ہوں تو بیوی کو عقد نکاح سے آزادی کی صورت کیا ہے‘‘ رکھا گیا تھا۔ اس اجلاس میں ایسی خواتین کی کثیر تعداد شریک تھی جو اپنے شوہروں کی ظلم و بربریت سے عاجز آکر خلع لینے پر مجبور ہوگئیں لیکن ان کے ظالم شوہریں خلع پر رضامند نہیں ہیں۔ جناب عمر جلیل نے اپنے فکرانگیز خطاب میں مزید کہاکہ وقف بورڈ میں ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس کے ذریعہ میاں بیوی کے آپسی جھگڑوں اور طلاق و خلع کے مسائل حل کئے جاسکیں اور اس ادارہ یا کونسلنگ سنٹر میں علماء، دانشوروں و ماہرین قانون کے علاوہ خواتین کو بھی شامل کیا جائے۔ اس ضمن میں جو کچھ بھی تجاویز موصول ہوں گی اس پر محکمہ اقلیتی بہبود ضرور غور کرے گا۔ جناب عمر جلیل نے ڈاکٹر شاہد علی عباسی، ڈاکٹر رفعت سیما، جسٹس محمد اسمعیل، صدرنشین ریاستی اقلیتی کمیشن جناب عابد رسول خاں، ڈاکٹر رشاد نسیم ندوی، مولانا محمد عامر قاسمی، ڈاکٹر حسن الدین احمد آئی اے ایس (ریٹائرڈ)، میجر قادری، ڈاکٹر عبدالمعز کی موجودگی میں کہا کہ مجوزہ کونسلنگ سنٹر میں خواتین کو بھی شامل کیا جائے تاکہ کونسلنگ سنٹر یا سل میں خواتین کی نمائندگی بھی ہوجائے۔
انہوں نے پرزور انداز میں کہا کہ اس طرح کے کونسلنگ سنٹر یا شرعی کونسل کے ذریعہ نہ صرف طلاق و خلع کی کارروائی تیزی کے ساتھ آگے بڑھانے میں مدد ملے گی بلکہ مسلم خاندانوں کو عدالتوں کے چکر کاٹنے پولیس اسٹیشنوں کی سیڑھیا چڑھنے اور مالی نقصانات سے بچایا بھی جاسکتا ہے۔ اس کونسلنگ سنٹر کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہیکہ مجوزہ ادارہ کو قانونی حیثیت دیتے ہوئے مظلوم عورتوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شادی کے موقع پر قاضی سے نکاح پڑھایا جاتا ہے یعنی شادیاں شرعی انداز میں کی جاتی ہیں اور جب میاں بیوی کی نااتفاقی کے نتیجہ میں بات طلاق اور خلع پر پہنچتی ہے تو قاضی کے ذریعہ نکاح پڑھوانے والے خاندانوں کو دارالقضاء کے ذریعہ شرعی انداز میں مسئلہ حل کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور وہ طلاق و خلع کیلئے غیرشرعی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اگر طلاق و خلع کے فیصلے دارالقضاۃ یا وقف بورڈ کے قائم ہونے والے ادارہ کے ذریعہ کروائیں جاسکی تو اس سے مسلم خاندانوں کو مالی نقصانات سے بھی محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ جناب عمر جلیل نے یہ بھی کہا کہ اگر فریق بورڈ کی کونسلنگ سنٹر کے فیصلہ کو نہیں مانتے تو وقف بورڈ کے خرچ پر عدالت سے رجوع ہوکر مظلوم خاتون کی مدد کو یقینی بنانے کی بھی تجویز زیرغور ہے۔ جناب عمر جلیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ نکاح کے وقت اللہ عزوجل کو حاضر و ناظر جان کر ایک ساتھ زندگی گذارنے کا عہد کیا جاتا ہے۔ ایسے میں اختلافات کو بھی اسلامی طریقہ سے دور کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے ایک اہم تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ دارالقضاۃ کی اہمیت و افادیت کو یقینی بنانے اور علحدگی کے خواہاں جوڑوں کو شرعی قوانین کے بے حرمتی سے روکنے کیلئے نکاح نامہ میں ایک اپنی دفعہ کو بھی شامل کیا جانا چاہئے، جس میں باضابطہ طور پر لکھا ہو کہ اختلافات کی صورت میں فیصلہ سیکولر قانون (عدالتوں) کے ذریعہ ہونا چاہئے یا فریقین شرعی فیصلے کو قبول کرتے ہیں لیکن اس طرح کے اقدامات کیلئے ہمارے علماء، دانشوروں اور ماہرین قانون ہی مل بیٹھ کر اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ اسپیشل سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود نے افسوس کے ساتھ کہا کہ آج خلع کے بارے میں بار بار باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ آخر خواتین کثیر تعداد میں خلع کیوں حاصل کررہی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہیکہ عورتوں پر ظلم اور ان سے ناانصافی کی جارہی ہے۔
ایسے میں ان خواتین کی قانونی امداد کیلئے لیگل سل قائم کرنے پر غور کیا جائے گا۔ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ ریاست میں 84 لاکھ مسلمان ہیں اور ان کیلئے صرف 28 دارالقضاۃ کام کررہے ہیں جو ناکافی ہیں۔ اسپیشل سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود نے مزید کہا کہ وقف بورڈ کے تحت مظلوم خواتین کی قانونی امداد کیلئے لیگ ایڈ سیل اور طلاق و خلع کے معاملات کی یکسوئی کیلئے کونسلنگ سنٹر علماء کے مشورہ اور ان کی سرپرستی میں قائم کرنے کی تجویز ہے اور ان تجاویز کو وہ حکومت کے سامنے پیش کریں گے۔ مسلم معاشرہ میں طلاق و خلع کے واقعات میں اضافہ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے عمر جلیل نے کہا کہ پہلے طلاق کے واقعات سننے میں نہیں آتے تھے لیکن اب یہ حال ہوگیا کہ شادی کے تین ماہ چھ ماہ یا ایک سال میں ہی بات طلاق تک پہنچ رہی ہے۔ انہوں نے بعض قاضیوں کی جانب سے کنٹراکٹ میریجس کروانے کی اطلاعات پر کہا کہ وقف بورڈ ایک ایسا میکانزم تیار کرے گا جس کے ذریعہ ایسی حرکتوں میں ملوث قاضیوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ابتداء میں صدائے حق شرعی کونسل کے صدر جناب معین الدین نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا جبکہ محفل کے روح رواں محمد رفیع الدین نے کارروائی چلائی۔
نادار لڑکیوں کے شادی فنڈکا عدم استعمال
ریاست میں غریب و نادار مسلم لڑکیوں کی شادی کیلئے ریاستی محکمہ اقلیتی بہبود خصوصی فنڈ رکھتا ہے۔ حکومت نے اس مقصد کیلئے 1.20 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں، جس میں سے ہر جوڑے کو 25 ہزار دیئے جاتے ہیں لیکن اجتماعی شادیوں سے مسلمانوں کی دوری کے نتیجہ میں فنڈ خرچ نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس بات کا انکشاف جناب عمر جلیل سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود نے کیا۔ اجلاس میں بعض خواتین نے شوہروں کے مظالم کی المناک داستانیں سناتے ہوئے ماحول کو غمگین کردیا تھا۔ abuaimalazad@gmail.com