حیدرآباد ۔ 4 اپریل (نمائندہ خصوصی) ہندوستان میں کچھ چائے والے آج بڑے عہدوں پر فائز ہوچکے ہیں جوکہ ایک اچھی بات ہے لیکن ملک میں آج بھی ایسے ہزاروں ایسے چائے والے موجود ہیں جن کی زندگیاں غربت کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ برسوں گذرجانے، جوانی اور طاقت و توانائی صرف کردینے کے باوجود انہیں بڑھاپے میں چائے ہی فروخت کرنی پڑ رہی ہے۔ ان ہی غریب اور غربت کی وجہ سے بڑھاپے میں بھی محنت کرنے پر مجبور ہونے والوں میں 77 سالہ محمد مولانا بھی ہیں جوکہ گذشتہ 40 برسوں سے کنگ کوٹھی کی دکانات میں تھرماس اور پیالیاں ہاتھ میں اٹھائے چائے فروخت کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ گذشتہ 40 برسوں سے جاری ہے۔ محمد مولانا نے مزید کہا کہ وہ صبح 8 تا رات 9 بجے تک سخت محنت کرتے ہیں جس کے بعد انہیں 200 تا 250 روپئے کی آمدنی ہوتی ہے۔ مولانا کے والد محبوب کھیتوں میں کام کرتے تھے جبکہ مولانا کی 7 اولادیں ہیں جن میں 4 بیٹے 3 بیٹیاں ہیں جوکہ شادیوں کے بعد اپنے گھر گرہستی میں مشغول ہوچکے ہیں۔ رحمت نگر یوسف گوڑہ کے مکین محمد مولانا نے کہا کہ اس عمر میں انہیں شوگر، بی پی یا کوئی اور مرض نہیں ہے ۔کنگ کوٹھی کے علاقہ کے دکانداروں کا کہنا ہیکہ مولانا ایک محنتی اور شریف النفس انسان ہیں جوکہ ایک ہاتھ میں تھرماس اور دوسرے ہاتھ میں 15 پیالیاں تھامے چائے فروخت کرتے ہیں۔ مولانا اس وقت سے چائے فروخت کررہے ہیں جب چائے کی قیمت 15 پیسے تھی اور آج چائے کی قیمت 10 روپئے ہوچکی ہے۔ حکومت بھی ان کے لئے کچھ نہیں کررہی ہے حالانکہ ایسے غریب عوام کی تعداد کافی بڑی ہے۔