سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا
دن میں اگر چراغ جلائے تو کیا کیا
سی ڈبلیو سی اجلاس
کانگریس ورکنگ کمیٹی نے صدر پارٹی سونیا گاندھی اور نائب صدر راہول گاندھی کے استعفیٰ کی پیشکش مسترد کردی۔ عام انتخابات میں بدترین شکست کے صدمہ سے دوچار کانگریس کی قیادت نفسیاتی طور پر مایوس ہوکر اگر کچھ ڈرامائی عمل کا مظاہرہ کرتی ہے تو یہ پارٹی کے قائدین کے سامنے اپنی ساکھ کی آزمائش کا ایک مرحلہ متصور ہوگا۔ حسب توقع یا حسب منشا کانگریس قائدین نے پارٹی کی ساکھ اور شکست کے لئے کسی ایک لیڈر کے بجائے اجتماعی ناکامیوں اور غلطیوں کو تسلیم کیا ہے۔ کانگریس قائدین کے پاس اب ناکام سیاسی مستقبل کے ساتھ انتظار اور صبر کے دو پیمانے ہیں۔ ایوان میں مضبوط اپوزیشن کے موقف سے محروم کانگریس کو اپنی ساکھ مضبوط بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔ کانگریس کے صبر و انتظار کے دو پیمانہ میں ایک پیمانہ قومی سطح پر پارٹی کو عوام کے قریب کرنے اور دوسرا پیمانہ علاقائی سطح پر پارٹی قائدین اور تنظیم کو طاقتور کرنا ہے۔ سیکولرازم کے خالص پن کے مظاہرہ کے ساتھ ہندوتوا طاقتوں کے خفیہ منصوبوں کو روکنے کیلئے بھی اسے کئی ایک آزمائشی دور سے گذرنا پڑے گا۔ کانگریس اقتدار کے مزے لینے کے بعد اس سے محروم ہوتی ہے تو اب اسے اپنی ٹوٹی پھوٹی ساکھ کو اپنے سر پر لیئے گھومنے کے بجائے اس کی وجوہات کا پتہ چلا کر اس کے تدارک پر غور کرنا اور عمل کرنا چاہئے۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی میں سیاسی ناکامی کے بارے میں غوروخوص کرنے کے بجائے پارٹی قیادت کے استعفیٰ کے ڈراموں پر توجہ دی گئی۔ مستقبل میں کانگریس کو کس قسم کا رول ادا کرنا ہے اس کا گہرائی سے احتساب کیا جانا چاہئے۔ تزکیہ نفس سیشن پارٹی کے لئے اب اہم ترین سیشن ہوگا۔ کانگریس کو اپنے غفلی سیکولرازم، رشوت ستانی کے واقعات، بدعنوانیوں، حکمرانی کے خراب اقدامات کا جائزہ لے کر عوام میں پائی جانے والی نفرت کو دور کرنے کی جانب دھیان دینی ہوگی۔ میڈیا کو اپنا دشمن بنانے کے بجائے انتخابی مہم کے دوران پیدا ہوئی خامیوں اور انتخابی مواد کی خرابیوں پر توجہ دے کر اس کا مستقبل میں احیاء نہ ہونے پائے کی جانب اقدامات کئے جانے چاہئے۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ کانگریس نے اپنی 10 سالہ حکمرانی کے آخری برسوں میں عوام الناس کی بنیادی ضرورتوں اور تقاضوں کو نظرانداز کردیا تھا۔ اس لئے عوام کی اکثریت نے ایک بدعنوان کانگریس کو برداشت نہیں کیا۔ ہندوستان کو کانگریس جیسی قومی جماعت کی کمزوریوں اور خرابیوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا۔
ہندوتوا طاقتوں نے اپنی آندھی کو جس طریقہ سے برپا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اس شدت سے اب کانگریس کو جوابی قدم اٹھانے ہوں گے کیونکہ یہ ہندوتوا گروپ بہت جلد اپنے اصل مقصد پر پہنچ کر ملک کی سیکولر تہذیب روایات کو پامال کرنے والا ہے۔ اس کی شدت سے مخالفت کرکے کانگریس کو ملک کے سیکولر کردار کی سلامتی کو یقینی بنانے کی کوشش کرنے کیلئے تیاری کرنی ہوگی۔ نریندر مودی قیادت حکومت کے ہر مخالف ہند سیکولر عمل کو ناکام بنانا اس کا فریضہ ہوگا۔ مسلمانوں کے خلاف یا جمہوری روایات سے ہٹ کر تیار ہوئی پالیسیوں کو روکنا اس کی ذمہ داری ہوگی۔ پارلیمنٹ میں اگرچیکہ اس کو اپوزیشن کا موقف حاصل نہیں مگر وہ اپنے ہم خیال پارٹیوں کے ساتھ ہندوتوا کی آندھی کے زور کا رخ موڑنے کیلئے اپنی سیکولر ڈھال اور ترکیب کو ایک نیا حوصلہ اور طاقت عطا کرنی ہوگی۔ ہندوتوا نے جمہوریت اور سیکولرازم کو توڑپھوڑ کر اسے اپاہج بنادیا تو ایوان اقتدار میں ردعمل ہوکر اسے یکلخت ختم بھی کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ نریندر مودی اس ملک کے دستور کے مطابق حلف لیں گے مگر بعد کے ایام میں ان کے کام دستور کے مغائر ہوں تو اس کو منع کرنے کیلئے کانگریس کو کس قسم کی تیاری کرنی ہوگی اس پر توجہ دینا ضروری ہے۔ کانگریس اور گاندھی خاندان کا دیرینہ تعلق ہی اس پارٹی کی قومی شناخت میں منفرد مقام حاصل ہے۔ گاندھی خاندان کو اپنی ماضی کی غلطیوں اور پالیسی سازی میں پیدا ہوئی خرابیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ اگر اس خاندان نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا تو آج سی ڈبلیو سی کے جن ارکان نے ان کے استعفیٰ کو مسترد کردیا ہے کل پارٹی کی ابتر حالت کے بعد ہونے والی کیفیت میں ایسا نہیں کرسکیں گے کیونکہ مودی نے قسم کھائی ہیکہ وہ ہندوستان کو کانگریس جیسی پارٹی سے پاک بنادیں گے تو کانگریس اس چیلنج کے سامنے خود کو کس حد تک مضبوط بنا سکتی ہے اس کی آئندہ آنے والے دنوں میں پالیسیوں،پروگراموں، اقدامات اور خود احتسابی کے عمل میں دلچسپی سے ظاہر ہوگا۔ پارٹی قیادت کو خود پر یقین کے ساتھ تنظیمی صلاحیتوں سے بہتری لانی ہوگی۔