آپ کے حُسن کے سَر ہے الزام
غیر سے مجھ کو عداوت کیا تھی
سی پی ایم کو کانگریس کی تائید
مغربی بنگال میں مہیشتالا اسمبلی حلقہ کیلئے ضمنی انتخاب میں کانگریس نے سی پی ایم امیدوار کی تائید کا اعلان کیا ہے ۔ واضح رہے کہ کانگریس اور کمیونسٹ جماعتوں نے اسمبلی انتخابات کے دوران بھی اتحاد کیا تھا تاہم وہ ممتابنرجی حکومت کو اقتدار سے بیدخل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے ۔ اس کے بعد سے دونوں جماعتوں کے مابین دوریاں بڑھتی جا رہی تھیں اور اتحاد یا مفاہمت کی بجائے اختلافی رائے کو زیادہ اہمیت دی جا رہی تھی ۔ حالیہ عرصہ میں کمیونسٹ جماعتوں کے قومی سطح پر کانگریس کے ساتھ اتحاد کی تجاویز شدت کے ساتھ پیش کی گئی تھیں اور اسی شدت کے ساتھ ان کی مخالفت بھی ہوئی تھی ۔ حیدرآباد میں سی پی ایم کی کانگریس کے دوران بھی یہ مسئلہ زیر بحث رہا تھا اور سی پی ایم میں دو گروپس بن گئے تھے ۔ ایک گروپ کانگریس سے اتحاد اور مفاہمت کا حامی تھا تو دوسرا گروپ شدت سے اس کی مخالفت کر رہا تھا ۔ خود پارٹی جنرل سکریٹری سیتارام یچوری بھی کانگریس سے مفاہمت یا اتحاد کے مخالفین میں شمار کئے جاتے رہے ہیں۔ کمیونسٹ جماعتوں میں سی پی آئی واحد جماعت ہے جو کھلے عام اور پوری شدت کے ساتھ کانگریس کے ساتھ مفاہمت کی بات کر رہی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ دوسری کمیونسٹ جماعتیں بھی ایسا کرنے کیلئے تیار ہوجائیں تاہم ایسا ہوتا اب تک نظر نہیں آ رہا تھا ۔ سی پی آئی کا استدلال ہے کہ ریاستی سطح پر مقامی حالات کے مطابق کانگریس یا پھر دوسری جماعتوں سے اتحاد کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے ذریعہ سکیولر اور اپوزیشن ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچاتے ہوئے بی جے پی کو شکست دینے کی حکمت عملی مرتب کی جاسکتی ہے ۔اب جبکہ کانگریس نے مغربی بنگال کی ایک اسمبلی نشست کیلئے کانگریس کی تائید کا اعلان کیا ہے تو یہ امیدیں پیدا ہونے لگی ہیں کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے قریب آسکتی ہیں۔ جہاں تک کانگریس اور کمیونسٹ جماعتوں کا مسئلہ ہے یہ دونوں نظریاتی اعتبار سے بی جے پی کی سب سے کٹر حریف رہی ہیں اور یہ کبھی بی جے پی سے دوستی یا مفاہمت نہیں کرسکتیں ۔ ایسے میں اگر یہ جماعتیں باہمی اتحاد کرتی ہیں تو یہ خوش آئند بات ہوسکتی ہے ۔
گذشتہ ضمنی انتخابات میں اترپردیش کی مثال سب کے سامنے ہے ۔ ریاست میں ایک دوسرے کی کٹر مخالفت کرنے والی سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے ایک مثال قائم کی تھی ۔ دو لوک سبھا حلقوں میں سماجوادی پارٹی نے اپنے امیدوار کھڑا کئے تھے اور بہوجن سماج پارٹی نے ان کی تائید کردی ۔ دونوں ہی حلقوں میں ‘ جو بی جے پی کیلئے وقار کے حلقے سمجھے جاتے تھے ‘ بی جے پی کو شکست ہوئی اور سماجوادی پارٹی نے کامیابی حاصل کی ۔ اس کے بعد اترپردیش میں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی میں اتحاد اور مفاہمت کی باتیں شروع ہوئی ہیں اور اس تعلق سے مثبت اشارے بھی ملنے لگے ہیں۔ اسی کو سامنے رکھتے ہوئے سی پی آئی نے کانگریس اور دوسری جماعتوں سے علاقائی سطح پر مفاہمت کی بات کہی ہے لیکن سی پی ایم اور دوسری جماعتیں ایسا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھیں ۔ مغربی بنگال میں کانگریس نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سی پی ایم امیدوار کی تائید کا اعلان کردیا جس کے بعد یہ امیدیں پیدا ہونے لگی ہیں کہ اس شروعات کو ایک مثبت اور بہتر انجام تک پہونچایا جاسکتا ہے ۔ یہ انجام لوک سبھا انتخابات میں سکیولر اور ہم خیال جماعتوں کی مفاہمت سے ہوسکتا ہے جس سے بی جے پی کو شکست دینے میں مددمل سکے ۔ اگر یہ جماعتیں ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو آئندہ عام انتخابات میں اس کے اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
سی پی آئی ایم ہو یا کانگریس ہو ‘ سماجوادی پارٹی ہو یا بہوجن سماج پارٹی ہو یا پھر بہار کی راشٹریہ جنتادل ہو یا دوسری ریاستوں کی علاقائی جماعتیں ہوں ‘ سبھی کو ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ آپس میں اتحاد اور مفاہمت کرتے ہوئے ہی بی جے پی کو شکست سے دوچار کرسکتی ہیں ۔ فی الحال بی جے پی نہ صرف کانگریس کا ملک بھر سے صفایا کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے بلکہ اس کے عزائم میں ملک میں اپوزیشن کو ہی ختم کردینا اولین ترجیح ہے ۔ ایسے منصوبوں سے سبھی جماعتوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور اگر ان خطرات کا قبل از وقت اندازہ نہیں کیا گیا تو ہر جماعت کیلئے آنے والا وقت مشکلات کا باعث بن سکتا ہے ۔ ان سبھی جماعتوں کو نہ صرف اپنے مستقبل کو بلکہ ملک کے مستقبل کو بھی بچانے کیلئے موجودہ حالات کو سمجھنے اور ایک دوسرے سے مفاہمت و اشتراک کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں بی جے پی کی شکست کو یقینی بنانے کیلئے آگے آنے کی ضرور ت ہے ۔