دہلی میں 26، 27 مارچ کو پارٹی اسکریننگ کمیٹی کا اجلاس، پنالہ لکشمیا اور محمد علی شبیر کا دورہ
حیدرآباد 25 مارچ (سیاست نیوز) صدر تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی مسٹر پنالہ لکشمیا، سابق وزیر مسٹر محمد علی شبیر کے بشمول دوسرے قائدین دہلی پہونچ گئے۔ 26 اور 27 مارچ کو کانگریس اسکریننگ کمیٹی سے ملاقات کرتے ہوئے سی پی آئی سے اتحاد اور امیدواروں کو فہرست کو قطعیت دیں گے۔ کانگریس ہائی کمان کی جانب سے طلب کرنے پر صدر تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی مسٹر پی لکشمیا، ورکنگ پریسڈنٹ مسٹر اتم کمار ریڈی، صدرنشین تشہیری کمیٹی مسٹر دامودھر راج نرسمہا، معاون صدرنشین مسٹر محمد علی شبیر کے بشمول دیگر تلنگانہ کانگریس قائدین دہلی پہونچ گئے۔ 26 اور 27 مارچ کو وار روم میں سی پی آئی سے اتحاد کے علاوہ اسمبلی اور لوک سبھا امیدواروں کی فہرست کو قطعیت دی جائے گی۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ کانگریس اور سی پی آئی کے درمیان سیاسی اتحاد کو تقریباً قطعیت دے دی گئی ہے۔ کانگریس نے ایک لوک سبھا اور 10 اسمبلی حلقے سی پی آئی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور سی پی آئی نے بھی مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کانگریس ہائی کمان 29 مارچ تک علاقہ تلنگانہ میں سیاسی اتحاد کے علاوہ ٹکٹ کے دعویداروں کی فہرست کو قطعیت دینے کے بعد سیما آندھرا پر ساری توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہے۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ تمام موجودہ ارکان اسمبلی کو ٹکٹ دینا یقینی ہے۔ تاہم چند ارکان اسمبلی کی کارکردگی پر مقامی کانگریس قائدین کو اعتراض ہے۔ انھیں تبدیل کرنے پر بھی پارٹی غور کررہی ہے۔ کانگریس اور ٹی آر ایس کے درمیان سیاسی اتحاد کے امکانات تقریباً ختم ہوگئے ہیں۔ علاقہ تلنگانہ میں سی پی آئی نے 4 اسمبلی حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ان حلقوں کے علاوہ کانگریس نے مزید 6 اسمبلی حلقے اور حلقہ لوک سبھا کھمم سی پی آئی کو چھوڑنے سے اتفاق کیا ہے۔
علاقہ تلنگانہ سے ٹکٹ کے دعویدار قائدین دہلی پہونچ چکے ہیں اور ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے کانگریس کے سینئر قائدین سے رجوع ہوتے ہوئے پارٹی ہائی کمان پر دباؤ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہر اسمبلی حلقہ سے 2 یا تین ناموں کی فہرست تیار کرتے ہوئے صدر تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی دہلی پہونچ گئے ہیں۔ کانگریس پارٹی پرانے شہر میں ٹکٹوں کے مسئلہ پر مجلس پر انحصار کررہی ہے۔ اسمبلی حلقہ نامپلی پر گزشتہ 5 سال سے کام کرنے والے کانگریس کے قائد فیروز خان کو ٹکٹ ملنے کے امکانات کم ہیں۔ اقلیتوں کو ٹکٹ دینے کا پارٹی پر دباؤ بن رہا ہے۔ تاہم جیت کو بنیاد بناکرٹکٹوں کی تقسیم کا پیمانہ بنانے کی ترجیح دی جارہی ہے۔ 6 اسمبلی حلقوں پر مسلمانوں کو امیدوار بنانے پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔