ہاتھ اس کی طرف بڑھائیں کیوں
جو پہونچ سے ہماری باہر ہے
سی پی آئی ایم کا کمزور موقف
مغربی بنگال اسمبلی کے انتخابات قریب ہیں۔ اس کے پیش نظر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ سی پی آئی ایم نے گذشتہ دنوں کولکتہ میں اپنا کھلا سیشن منعقد کیا، جس کا مقصد پارٹی میں نئی جان ڈالنا تھا۔ ممتابنرجی کی قیادت میں ترنمول کانگریس نے بائیں بازو محاذ کی 34 سال سے قائم حکومت ختم کرنے کا غیرمعمولی سیاسی کارنامہ انجام دیا تھا۔ اس وقت بھی ممتابنرجی حکومت شاردا چٹ فنڈ اسکام جیسے بعض دھکوں کے ساتھ عوام کے تمام طبقات میں مساوی طور پر مقبول ہے جبکہ دوسری طرف اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سے بائیں بازو محاذ کی تمام جماعتیں سی پی آئی، سی پی ایم، انقلابی سوشلسٹ پارٹی اور فاروڈ بلاک کی صفیں بکھری ہوئی ہیں اور ان تمام پارٹیوں کے کارکنوں میں عام مایوسی پائی جاتی ہے۔ سی پی آئی ایم نے اپنے اجلاس میں اپوزیشن کی حیثیت سے اپنے رول کا محاسبہ کیا ہے اور آنے والے دنوں میں پارٹی کارکنوں کو سرگرم عمل کرنے کی حکمت عملی طئے کی ہے۔ چند برس قبل تک سی پی آئی ایم مغربی بنگال سے باہر کیرالا اور تریپورہ میں اقتدار پر رہی ہے۔ اس کی آواز قومی سطح پر بھی اہمیت اور توجہ کے ساتھ سنی گئی ہے کیونکہ یہ پارٹی دانشوروں کی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ اس پارٹی نے 2008ء میں ہند ۔ امریکہ نیوکلیئر معاملت کو مؤثرانداز میں چیلنج کیا تھا اور اس مسئلہ پر سی پی آئی ایم اور دوسری بائیں بازو جماعتوں نے یو پی اے حکومت کی تائید سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے قومی وقار کو بلند کیا تھا۔ بہرحال مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں شکست کے ساتھ سی پی آئی ایم کی ساکھ عوام میں بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کولکتہ اجلاس کے بارے میں پارٹی نے یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی ہیکہ اس کا مقصد محض مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کی تیاریاں کرنا نہیں ہے۔ پارٹی عوام کے وسیع تر مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی طئے کرنے کی روایات برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ کولکتہ اجلاس اس روایت کا تسلسل ہے۔ سی پی آئی ایم کے بعض سرکردہ قائدین نے ان تلخ احساسات کا اظہار کیا ہیکہ اگر پارٹی غرور و تکبر کو ختم نہیں کرے گی اور حقائق کا سامنا کرتے ہوئے انتخابات میں کانگریس سے مفاہمت نہیں کرے گی تو انتخابات میں ترنمول کانگریس کے مقابل اسے ایک مرتبہ اور شکست فاش سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ سی پی آئی ایم کو مغربی بنگال میں نہ صرف اپنے نظریات پر ازسرنو غور کرنا ہے بلکہ کانگریس سے اپنے تعلقات کی نوعیت کا جائزہ لینا ہوگا۔ مغربی بنگال اور کیرالا کے حالات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ کیرالا میں کانگریس سی پی آئی ایم کا قدیم حریف ہے لیکن مشکل یہ ہیکہ مغربی بنگال اور کیرالا کے اسمبلی انتخابات کے ساتھ 2016ء میں ہی منعقد ہورہے ہیں اور سی پی آئی ایم کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ کیرالا میں جس پارٹی سے اس کا اصل مقابلہ ہوگا۔ مغربی بنگال میں اس سے اتحاد کرتے ہوئے برسراقتدار ترنمول کانگریس سے نمٹنا ہوگا۔ کیرالا موجودہ سیاسی منظر سی پی آئی ایم کیلئے حوصلہ افزاء ہے۔ کانگریس آپسی خلفشار کی وجہ سے کمزور ہورہی ہے اور اس کی زیرقیادت جمہوری اتحاد کی کامیابی غیریقینی ہے۔ سی پی آئی ایم کی زیرقیادت بائیں بازو محاذ کے حوصلے بلند ہیں۔ ویسے صدر کانگریس سونیا گاندھی کے حالیہ دورہ کیرالا سے کانگریس کی صفوں میں اتحاد کو تقویت ملنے کی اطلاعات ہیں۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کو شکست دینا مشکل ہے۔ سی پی آئی ایم مغربی بنگال میں کانگریس سے انتخابی مفاہمت کے کیرالا میں اپنی کامیابی کے امکانات کو کم کرنے کی سیاسی غلطی نہیں کریگی۔ مبصرین کا احساس ہیکہ مغربی بنگال کے دیہی علاقوں میں سی پی آئی ایم کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔ شہری غریب بھی اس سے دور ہوچکے ہیں۔ خواتین کمزور طبقات اور محنت کش طبقہ میں یکساں مقبول کوئی لیڈر سی پی آئی ایم موجود نہیں ہے۔
ملک کی برآمدات میں کمی
کسی بھی ملک کی ترقی اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ اس کی برآمدات کو فروغ ہوتا ہے اور درآمدات کم ہوتی ہیں۔ گذشتہ مالیاتی سال کے دوران ہندوستان کی برآمدات میں منفی 16 فیصد کی گراوٹ ہوئی ہے۔ آزادی کے بعد برآمدات کا یہ دوسرا بدترین زوال ہے۔ اس سے قبل سال 1952,53 میں برآمدات میں منفی 18 اشاریہ سات فیصد کی کمی ہوئی تھی۔ آزاد ہندوستان کے 68 برسوں میں برآمدات میں اس قدر شدید گراوٹ ماہرین مالیات و معاشیات کیلئے لمحہ فکر ہے۔ جاریہ مالیاتی سال اپریل تا نومبر برآمدات 213 بلین ڈالرس سے گھٹ کر 174 بلین ڈالرس رہ گئی ہے۔ سال 2011,12ء میں تقریباً 400 بلین ڈالرس کی برآمدات ہوئی تھی جو ایک ریکارڈ تھا۔ ماہرین کا احساس ہیکہ بعض ممالک کی کرنسی کی قدر میں گراوٹ اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ہندوستان کی برآمدات پر منفی اثر پڑا ہے۔ برآمدات میں کمی تشویش کا باعث ہے کیونکہ روزگار سے مربوط ایکسپورٹ اداروں کو مسائل درپیش ہونے سے روزگار سے جڑے افراد کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برآمدات میں کمی کے رجحان سے اندرون ملک طلب پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ سال بہ سال کارکردگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سال 2010,11ء میں برآمدات میں چالیس اشاریہ پانچ فیصد تک اضافہ ہوا۔ فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشن کا اندازہ ہیکہ سال 2015,16ء میں 260 بلین تا 265 بلین ڈالرس کی برآمدات ہوں گی۔ آخری سہ ماہی میں فیسٹیول سیزن کی وجہ سے برآمدات کو فروغ ہوگا۔ سمندر پار ممالک میں طلب کی کمی اشیائے مایحتاج کی قیمتوں میں گراوٹ اور کرنسی کی قدر کم ہونے کی وجہ سے ملک کی برآمدات پر منفی اثرات پڑے ہیں۔ ماہرین کا احساس ہیکہ ملک کو آئندہ مالیاتی سال 325 بلین ڈالرس مالیت کی برآمدات کا نشانہ مقرر کرنا چاہئے۔ اگر عالمی محرکات مددگار ثابت ہوں تو برآمدات میں 23 تا 25 فیصد اضافہ ممکن ہے۔ یہ امر خوش آئند ہکہ حکومت برآمدات سے جڑے اداروں کے استحکام پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ اگلے مرکزی بجٹ میں خصوصی معاشی زونس کی وسعت اور استحکام پر توجہ رہے گی۔ مرکزی حکومت نے پہلی مرتبہ ریاستوں کی حکومتوں کے ساتھ آئندہ چند دنوں میں ایک اجلاس طلب کیا ہے جس میں ہر ریاست کیلئے علحدہ فارن ٹریڈ پالیسی سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کرنے کا فیصلہ کیا جائے اور انفراسٹرکچر کے فروغ پر توجہ دی جائے گی تاکہ برآمدات میں اضافہ ہوسکے۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے کہ بین الاقوامی مارکٹ میں ہمارا پروڈکٹ زیادہ قابل قبول ہو۔ ایک بار مارکٹ میں مقام کھونے کے بعد پھر یہ مقام حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مسابقت سخت ہے۔ بہترین کوالٹی مارکٹ میں رنگ جماتی ہے۔