پارٹی کے ارکان لوک سبھا میں ارکان پارلیمنٹ کی تعداد میں کمی کا الزام ‘ رکن پولیٹ بیورو حنان ملا اور ایک سینئر قائد کا بیان
کولکتہ ۔ یکم جنوری ( سیاست ڈاٹ کام ) مرکز کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرتے ہوئے اہم کردار ادا کرنے والی سی پی ایم انحطاط پذیر ہے اور اب اپنے وجود کی صرف پرچھائے بن گئی ہے اور بے بسی سے ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی کو بی جے پی کے خلاف کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے دیکھ رہی ہے ۔ اپنے سرپرست ہرکشن سنگھ سرجیت اور جیوتی باسو کی زیرقیادت پارٹی نے وی پی سنگھ حکومت کی 1989ء میں تشکیل ‘ متحدہ محاذ حکومت کی 1996میں تشکیل اور کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت کے پہلے دور 2004ء میں تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا ان تمام حکومتوں کے دوران سی پی آئی ایم نے نہ صرف بیرونی تائید فراہم کی تھی بلکہ اہم کردار ادا کرتے ہوئے مختلف علاقائی اور قومی پارٹیوں کو متحد کیا تھا لیکن یہ ماضی کی داستان ہے ۔ موجودہ دور میں سی پی آئی ایم کی طاقت اور قیادت قومی سیاست میں کوئی اہم کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔ سی پی آئی ایم کے پولیٹ بیورو رکن حنان ملا نے کہا کہ ہاں یہ درست ہے کہ کئی مواقع پر بائیں بازو بڑا کردار ادا کرتے ہوئے اپوزیشن طاقتوں کو متحد کرسکتا تھا لیکن فی الحال اس کی طاقت پارلیمنٹ میں کم ہوچکی ہے ۔ ہماری تنظیمی صلاحیت اس قابل نہیں ہے کہ کوئی کلیدی کردار ادا کرسکے ۔ یہ اُس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک کہ بائیں بازو کی فہرست کا احیاء کیا جائے اور اس کی کوتاہیوں کو دور کیا جائے ۔متحدہ محاذ حکومت کے دوران 1996ء میں اور یو پی اے کے پہلے دور اقتدار 2004ء میں سی پی آئی ایم زیر قیادت بائیں محاذ کی علی الترتیب لوک سبھا میں 52 اور 60نشستیں تھیں ۔ وی پی سنگھ کے دور حکومت میں بایاں محاذ لوک سبھا میں 52نشستوں پر قابض تھا لیکن اس کی رکنیت اور اس کے ارکان پارلیمنٹ 2014ء میں بہت کم ہوگئے ۔ قبل ازیں ہم ایسے موقف میں تھے ‘ کیونکہ ہماری 50سے زیادہ نشستیں تھی لیکن اب ہماری نشستیں اور طاقت میں کافی کمی آچکی ہیں اور ہم کوئی بڑا کردار ادا کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ سی پی آئی ایم کبھی مغربی بنگال میں اپنے مستحکم گڑھ رکھتی تھی لیکن اب ان سے محروم ہوچکی ہیں ۔ ان علاقوں سے لوک سبھا میں سی پی آئی ایم کے 42ارکان جاتے تھے اور سی پی آئی ایم کی قومی سیاست میں اہمیت تھی تاہم سی پی آئی ایم کے ایک سینئر قائد نے کہا کہ صرف تعداد سے کچھ نہیں ہوتا ‘ پارٹی کی موجودہ قیادت میں ہرکشن سرجیت اور جیوتی باسو جیسا کردار بھی موجود نہیں ہیں ۔ سرجیت اور جیوتی باسو دونوں ملک گیر سطح پر قابل قبول تھے ‘ انہیں نہ صرف بایاں اور دیاں بازو ہی نہیں بلکہ مرکزی حکومت بھی قبول کرتی تھی۔ یہ ان کا کرشمہ تھا کہ اگر وہ کچھ کہتے تو ہر شخص اس پر غور کرنے پر مجبور ہوجاتا تھا لیکن ہماری موجودہ قیادت کے پاس نہ تو ایسی بصیرت ہے اور نہ کرشمہ ۔ جیوتی باسو نے ایک وقت 1996ء میں وزارت عظمی کا عہدہ بھی ٹھکرادیا تھا کیونکہ یہ پارٹی کا فیصلہ تھا ‘ بعد میں انہوں نے اسے پارٹی ایک بہت بڑی غلطی قرار دیا تھا ۔