سی بی آئی اور سپریم کورٹ

نمک کی کان میں بن جاتی ہے نمک ہر شئے
اثر ہے سیاسی مفادات کا بھی کچھ ایسا
سی بی آئی اور سپریم کورٹ
ہندوستان میں سیاستدانوں کو نشانہ بنانے حکمراں طبقہ کا مضبوط ہتھیار سی بی آئی سمجھا جارہا تھا۔ گوہاٹی ہائیکورٹ نے اس تحقیقاتی ادارہ کے قیام کو ہی غیردستوری قرار دیا تھا۔ گذشتہ چند برسوں سے سی بی آئی نے ناقابل قبول سیاسی اقدامات کئے ہیں اس کی کارکردگی پر سپریم کورٹ نے بھی انگشت نمائی کی ہے۔ ملک میں ہونے والے کئی اسکامس سے نمٹنے میں اس کی کوتاہیوں کیلئے بھی اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس ملک میں ماضی میں بوفورس اسکام سے لیکر تازہ 2 جی اسپکٹرم اور کوئلہ تخصیص اسکام کا کام بھی اس ادارہ کو سونپا گیا ہے۔ سی بی آئی کو ان سیاستدانوں نے ہرگز پسند نہیں کیا جن کے گریباں تک اس کے ہاتھ پہنچے ہیں۔ یہ ہمیشہ حکمراں پارٹی کے لئے کام کرتی رہی ہے۔ مرکز میں جو بھی پارٹی حکومت بنائے گی اس کی ہدایت پر ہی عمل کرے گی اور یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ سی بی آئی کا استعمال حکمراں پارٹیوں نے اپنے اغراض کیلئے کیا ہے۔ مخالفین کو سبق سکھانے کی حد تک سی بی آئی ایک مضبوط قانونی آلہ کار کا کام کرتی رہی ہے۔ اس نے ملک کے اہم سیاستدانوں جیسے سابق وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ، چیف منسٹر ٹاملناڈو جیہ للیتا، آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو، بی ایس پی لیڈر مایاوتی اور سماج وادی پارٹی سربراہ ملائم سنگھ قائدین سے پوچھ گچھ کی ہے لیکن ان پر کوئی مقدمہ بازی نہیں ہوئی اور نہ ہی انہیں قانون کی گرفت میں لایا گیا کیونکہ سی بی آئی نے صرف حکمراں پارٹی کی ڈرانے والی پالیسی پر عمل کیا۔ اب صرف لالو پرساد یادو کو چارہ اسکام میں جیل ہونی ہے ماباقی بڑے سیاستداں تو سی بی آئی کے لئے سیاسی آسامی بن کر ہی کام کرتے رہے ہیں۔ اب گوہاٹی ہائیکورٹ نے بھی سی بی آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے قیام کو غیر دستوری قرار دیا تو یہ اس ایجنسی کے لئے سب سے بڑا دھکہ ہے۔ اس کے سمینار پر سوال اٹھا کر ملک میں ایک مضبوط تحقیقاتی ادارہ کے وجود پر شبہات پیدا کردیئے گئے ہیں۔ جب سی بی آئی ہی کو شک کے دائرہ میں لایا گیا ہے تو پھر ماباقی تحقیقاتی ادارے اور پولیس کے محکموں میں کام کرنے والے آفیسرس کے بارے میں عوام کی کیا رائے قائم ہوگی یہ غور طلب ہے۔ مرکزی حکومت نے سی بی آئی کے خلاف گوہاٹی ہائیکورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کرنے سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سلسلہ میں ماہرین قانون سے صلاح لی گئی۔ ہوسکتا ہیکہ گوہاٹی ہائیکورٹ کا فیصلہ غلط ہو اور اس کو کالعدم کردیا جائے لیکن ہائیکورٹ کے فیصلے کے تحت جو رائے قائم ہوتی ہے اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ تحقیقاتی ادارہ کی اب شبیہہ مسخ ہوچکی ہے۔ اس کو درست کرنے کیلئے قانون کے رکھوالوں، قانون سازوں کو ہی شفاف کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو کانگریس انوسٹی گیشن بیورو کا نام دیا ہے تو پھر اس سے بڑی افسوسناک بات کیا ہوگی کہ حکمراں پارٹی کی کارکردگی نے تحقیقاتی ادارہ کی ساکھ کو متاثر کردیا۔ ملک کے وزیرقانون کو اتنا مضبوط اور دیانتدار ہونا چاہئے کہ وہ اس ملک کے قانونی نظام کو شفاف اور مستحکم بنائے تاکہ کسی بھی غیرقانونی تنازعہ کی یکسوئی میں تاخیر نہ ہو ورنہ ملک میں کئی ملین مقدمات قانونی عمل کے رحم و کرم پر رہ کر التوا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سی بی آئی کے خلاف گوہاٹی ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک ایسے وقت آیا ہے جب چیف منسٹر گجرات نریندر مودی کے خلاف گجرات فسادات کے مقدمات میں سی بی آئی کا شکنجہ ان کے گردن تک پہنچانے کی تیاری کی جارہی تھی۔ اب بی جے پی اس موضوع کو انتخابی میدان میں لے جائے گی اور حکمراں پارٹی کے رول پر تنقیدیں کرے گی۔ ہمارے دستوری اور قانونی ماہرین ہی اس خصوص میں اپنی اہم رائے دے سکتے ہیں کہ آیا گوہاٹی ہائیکورٹ کا فیصلہ واجبی ہے یا حکومت کے تحقیقاتی ادارہ کی ایسی حالت کردی ہے کہ آج اس پر ججس شبہ ظاہر کرکے غیردستوری قرار دے رہا ہے۔ عوام کے سامنے اس ادارہ کی اہمیت صفر کردی جارہی ہے۔ سی بی آئی کے تعلق سے ہمیشہ حزب مخالف گوشوں نے یہی کہا ہیکہ یہ ادارہ تحقیقاتی نہیں ہے بلکہ سیاسی پارٹیوں کا آلہ کارہے۔ مجرموں اور ٹھگوں کا محافظ ہے۔ یعنی سی بی آئی نے جس کسی کا کیس اپنے ہاتھ میں لیا ہے اس کا کلیان ہی ہوجاتا ہے۔ یعنی اصل ملزم باعزت بری ہوجانا یقینی ہوجاتا ہے یا پھر جس کے خلاف سی بی آئی کارروائی کرے گی اس میں کوئی دوسرا تحقیقاتی ادارہ ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ اس لئے اس ملک کے دستور سازوں، قانون سازوں اور ماہرین قانون کو ایک ایسا مناسب میکانزم بنانے پر دھیان دینا چاہئے جس کی مدد سے تمام سرکاری اداروں کی کارکردگی آزادانہ اور دستوری موقف کے حامل ہو۔ سی بی آئی کو حکمراں پارٹی کے پنجرے کا طوطا بنانے کے بجائے اس کو قانون کا مضبوط محافظ بنایا جائے۔ اب سپریم کورٹ نے بیورو کریٹس یا سرکاری عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کیلئے حکومت کی منظوری کو لازمی قرار نہیں دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے سی بی آئی کا موقف مزید مضبوط ہوگا۔ تاہم اس اہم ادارہ کو سیاسی مقصد براری سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔