سی آر پی ایف اور مرکزی حکومت

ہمارے غم کا فسانہ ہے ناتمام ابھی
فسانہ اپنا سناکر بھی ہم سنا نہ سکے
سی آر پی ایف اور مرکزی حکومت
مرکزی حکومت کی ساری توجہ ریاست جموں و کشمیر کے ان احتجاجی نوجوانوں کو پسپا کرنے کی جانب مبذول ہے جو اپنی ہی ریاست میں محرومی اور دوسرے درجہ کے شہری جیسے رویہ کا سامنا کرتے ہوئے احتجاج کررہے ہیں۔ ان کی سنگباری کو نکسلائیٹس کی بندوقوں سے نکلنے والی گولیوں سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ مرکز کی اس سوچ کے درمیان چھتیس گڑھ کے ضلع سگما میں سی آر پی ایف کے90جوانوں کے قافلہ پر ماویسٹوں کا حملہ تشویشناک واقعہ ہے۔ اس حملے میں سی آر پی ایف کے 25جوان ہلاک ہوئے۔ حکومت نے حملہ کے فوری بعد حسب روایت بیان دے کر اظہار افسوس کیا اور وزیراعظم نریندر مودی نے اس حملہ کو بزدلانہ قراردیتے ہوئے مذمت کی اور صورتحال پر قریبی نظر رکھنے کے عہد کا اعادہ کیا۔ وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کی نظر میں یہ حملہ سرد خونی قتل ہے۔ بائیں بازو کی انتہا پسند سرگرمیوں کو کچلنے کیلئے اختیار کردہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کا ہربار اعادہ ہوتا ہے۔ سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے سال 2011 میں کہا تھا کہ نکسلزم اب دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے۔ گزشتہ ایک دہے کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ چدمبرم کا یہ خیال آج کی تاریخ کا آئینہ ہے۔وادی کشمیر میں سنگباری کے بڑھتے واقعات کے درمیان چھتیس گڑھ میں خون ریز نکسل حملہ ہونا مرکزی حکومت کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں کرنی چاہیئے کہ وادی کشمیرسے زیادہ خطرنک صورتحال نکسلائیٹس سے متاثرہ علاقوں کی ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران نکسلائیٹس کا یہ سب سے خطرناک حملہ ہے۔ ماضی میں سیکورٹی فورسیس نے نکسلائیٹس کے خلاف مؤثر کارروائی کرتے ہوئے ان کی طاقت کو کمزور کردیا تھا لیکن بعد کی حکومتوں میں ملک کی سلامتی کے اُمور پر توجہ دینے کا طریقہ حسن تبدیل ہوگیا۔ دہشت گردی کا واویلا مچانے، گوشت، گاؤ رکھشک، ہندوتوا، دائیں بازو کی انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے والی کارروائیوں نے نکسلائیٹس سے متاثرہ علاقوں کی صورتحال کو نازک بنادیا۔ ادھر نکسلائیٹس نے اپنے اندر نئی توانائی پیدا کرلی اور اُدھر حکومت اس سے بے خبر اپنی ہندوتوا پالیسیوں کی پذیرائی کرتی رہی۔ وادی کشمیر میں امن کے قیام کے لئے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی نے جس طرح کی کوشش کی تھی اس کے برعکس موجودہ حکومت کی کارروائیوں سے اس ریاست کو بدامنی کا شکار بنادیا ہے۔ دراصل نکسلائیٹس سے متاثرہ ریاستوں میں چھتیس گڑھ بھی شدید متاثر ہے، یہاں 2013 سے اب تک ہونے والے نکسلزم واقعات میںپیر کے دن کئے گئے حملہ کو شدید سمجھا جارہا ہے۔نکسلائیٹس یاماویسٹوں کی مجتمع ہوئی طاقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، نکسلائیٹس نے سی آر پی ایف کو اپنے نشانہ پر رکھا ہے۔ گزشتہ مارچ میں ہی ایک حملے میں19 افراد ہلاک ہوئے تھے ، فوری طور پر وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ دراصل نکسلائیٹس کا یہ حملہ ان کے خلاف حکومت کی کارروائیوں میں کامیابی کا مایوسانہ ردعمل ہے۔ اب بھی وہ پارلیمنٹ میں بیان دے کریہ ادعا کررہے ہیں کہ نکسلائیٹس کے خلاف کارروائی کی وجہ سے ہی یہ گرو پ مایوسی کا شکار ہوکر حملے کررہا ہے۔ آخر حکومت یہ بیان دے کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہے ، نکسلائیٹس کی کارروائیاںپہلے سے زیادہ خطرناک ہورہی ہیں اور وزیرداخلہ اس کی سنگینی کو کم کرکے بتانا چاہتے ہیں۔ 2010 میں اسی علاقہ میں نکسلائیٹس نے شدید حملہ کیا تھا جس میں 76 سی آر پی ایف جوان ہلاک ہوئے تھے۔ ملک کی سیکوریٹی ایجنسیوں میں اس تاثر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ خطرناک حالات کا سامنا کرنے والی فورس کو عصری تقاضوں سے لیس کرنے کے لئے صرف زبانی جمع خرچ کی باتیں ہوتی آرہی ہیں۔ سی آر پی ایف پر یہ حملہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب ملک کی سب سے بڑی نیم فوجی فورس گزشتہ چار ماہ سے اپنے سربراہ کے بغیر کام کررہی ہے۔ سی آر پی ایف کے سربراہ کی حیثیت سے کے دُرگا پرساد نے 28فبروری کو سبکدوشی اختیار کرلی اور ان کی جگہ اب تک ہمہ وقتی سربراہ کا تقررعمل میں نہیں لایا گیا۔ چھتیس گڑھ کا بیشتر علاقہ قبائیلی غلبہ والی آبادی پر محیط ہے اور یہاں پر نکسلائیٹس کا اثر زیادہ ہے۔ یہ گروپ اس علاقہ میں متوازی حکومت کاکام کرتا ہے۔ مرکز اور ریاستی حکومت کو اس علاقہ کی ترقی کیلئے اپنے پروگراموں کو بروئے کار لانے کے دوران سی آر پی ایف کے لئے عصری ہتھیار کا بندوبست کرنا ضروری ہے۔ ملک کی نکسلائیٹس سے متاثرہ ریاستوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے 8مئی کو طلب کردہ اجلاس میں یہ بھی غور کرنا ضروری ہے کہ نکسلائیٹس گروپ کی طاقتوں کے دوبارہ مجتمع ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔ حکومت کی جانب سے کی جانے والی حق تلفیاں اور محرومی کا شکار افراد کی تعداد میں اضافہ بھی تشویشناک بات ہے۔