سی آئی اے کی ایذا رسانیاں
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ایذا رسانیوں کی داستانیں اب دنیا بھر کے سامنے آنے لگی ہیں۔ ورلڈٹریڈ سنٹر پر ہوئے حملوں کے بعد سے امریکی خفیہ ایجنسی نے دہشت گردوں اور مشتبہ دہشت گردوں کے لیبل لگاتے ہوئے سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا تھا اور ان کو غیر انسانی ایذائیں پہونچاتے ہوئے ان سے پوچھ تاچھ کی گئی ہے ۔ اس سلسلہ میں غیر سرکاری سطح پرا لزامات پہلے ہی سے عائد ہوتے رہے ہیں لیکن اب خود امریکہ کی سینیٹ کمیٹی کی جانب سے رپورٹ جاری کرتے ہوئے حقائق کا اعتراف کیا گیا ہے اور یہ ادعا کیا گیا ہے کہ خفیہ ایجنسی سی آئی ا ے نے پوچھ تاچھ کے نام پر محروسین کو انتہائی غیر انسانی ایذائیں پہونچاتے ہوئے ان سے پوچھ تاچھ کی ہے ۔ کچھ عرصہ قبل جب عراق میں جنگ جاری تھی امریکی اور برطانوی فوجیوں کی جانب سے ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی انتہائی دل دہلادینے والی تفصیلات کا علم ہوا تھا ۔ ابو غریب جیل میں بھی قیدیوں سے غیر انسانی سلوک کیا گیا تھا اور انہیں پوچھ تاچھ کے نام پر جو اذیتیں د گئی تھیں ان کی بین الاقوامی قوانین میں کسی طرح کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ قیدیوں کو برہنہ رکھا گیا ‘ ان کو کئی کئی دن بلکہ ایک ہفتے سے زیادہ وقت تک نیند سے محروم رکھا گیا ۔ انہیں پانی میں برقی شاک چھوڑ کر لکڑی کے ٹیبل پر رات رات بھر بٹھایا گیا ۔ ان کے ساتھ ایسی ایسی حرکتیں کی گئیں جن کو ضبط تحریر میں بھی نہیں لایا جاسکتا ۔ اس وقت بھی دنیا بھر میں شدید تنقیدیں ہوئی تھیں اور ایسی حرکتیں کرنے والے افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن وہ امریکہ ہی کیا جو اپنے کئے دھرے پر جواب دینا ہی ضروری سمجھے ۔ دنیا بھر میں حقوق انسانی کی دہائی دینے والے یہ ممالک خود انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتے رہے ہیں اور ایسا ایک سے زائد مرتبہ ہوا ہے ۔ اس کے باوجود اس کو الفاظ کی الٹ پھیر کے ساتھ صرف عذر اور جوابی عذر کی نذر کردیا جاتا ہے اور کسی طرح کی کارروائی سے گریز کیا جاتا ہے ۔ عراق کی ابو غریب جیل کے بعد اب سی آئی اے کی جانب سے دوسرے مقامات پر بھی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی اطلاعات سامنے آئی ہیں اور اس پر بھی کسی کارروائی کی امید کرنا فضول ہی کہا جاسکتا ہے ۔
قیدیوں سے غیر انسانی سلوک کرنے سے متعلق تازہ ترین رپورٹ امریکی سینیٹ کی جاری کردہ ہے اور اب یہ بھی آشکار ہوگیا ہے کہ اس وقت کے صدر امریکہ جارج ڈبلیو بش اس ایذا رسانی کے غیر انسانی عمل سے پوری طرح نہ صرف واقف تھے بلکہ وہ اس عمل کا حصہ بھی رہے ہیں ۔ اس وقت کے نائب صدر امریکہ ڈک چینی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اس سارے عمل سے جارج ڈبلیو بش پوری طرح واقف تھے اور ان سے مشاورت کے بعد ہی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا ہے ۔ اس غیر انسانی ایذا رسانی کا حصہ رہنے والے تحقیقاتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس پوچھ تاچھ کے نتیجہ ہی میں کئی خطرناک دہشت گردوں کے تعلق سے معلومات حاصل ہوسکی ہیں اور خود اسامہ بن لادن کا پتہ بھی اسی پوچھ تاچھ کی وجہ سے مل سکا تھا ۔ اس پوچھ تاچھ کی کامیابی ایک الگ مسئلہ ہے اور اصل سوال قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے غیر انسانی ‘ انتہائی بربریت انگیز اور وحشیانہ طرز عمل کا ہے اور موجودہ دور میں اس کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا چاہے وہ کسی بھی مقصد سے کیا گیا ہو۔ جس طرح سے دہشت گردی کا کسی بھی حال میں کوئی جواز نہیں ہوسکتا اسی طرح دہشت گردوں کا پتہ چلانے کے نام پر قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے پوچھ تاچھ کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ یہ انکشاف اور بھی تکلیف دہ ہے کہ خود صدر امریکہ جارج ڈبلیو بش بھی اپنے دور صدارت میں اس غیر انسانی ‘ وحشیانہ اور بربریت انگیز سلوک سے واقف تھے اور اس کا حصہ بھی رہے تھے ۔ انہوں نے ہی اس کی منظوری بھی دی تھی دنیا بھر میں حقوق انسانی کی دہائی دیتے نہیں تھکتے امریکہ اور اس کے صدر کی وحشتناک کارروائیاں اب جبکہ خود امریکی سینیٹ نے دنیا کے سامنے پیش کردی ہیں ایسے میں دنیا بھر کے سامنے امریکہ کو معذرت خواہی کرنی چاہئے ۔ نہ صرف معذرت خواہی کرنی چاہئے بلکہ ان تحقیقاتی عہدیداروں کو سخت ترین سزائیں دینی چاہئیں جنہوں نے پوچھ تاچھ کے نام پر انسانیت کی دھجیاں اڑائی ہیں ‘ بین الاقوامی قوانین کو پامال کیا ہے اور قیدیوں کے انسانی حقوق سلب کئے گئے ہیں۔ امریکہ کو حقوق انسانی کے تئیں اپنی سنجیدگی کو ثابت کرنے کا یہ موقع ہے ۔ جہاں تک بارک اوباما کے انتظامیہ کا سوال ہے وہ بھی صرف رپورٹ جاری کرتے ہوئے بری الذمہ نہیں ہوسکتا بلکہ اسے سی آئی اے کے عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے تاکہ دوسروں کو مستقبل میں اس طرح کی غیر انسانی حرکتیں دہرانے کی جرات نہ ہوسکے ۔