سیکولر ہندوستانیوں کا اتحاد ضروری

ہستی کو ختم کر کے وہ بے دام کر گیا
اہل خرد کو موردالزام کر گیا
سیکولر ہندوستانیوں کا اتحاد ضروری
ہندوستان کے سیکولر ماحول کو صرف ایک مذہبی نظریہ سے مکدر کرنے کی کوشش کے خلاف ملک کے مضبوط سیکولر ذہن قائدین بی جے پی کے خلاف مورچہ بند ہیں تو یہ ہندوستان کی اقلیتوں کے لئے ایک خوش آئند بات ہے۔ بی جے پی کے قائدین خود کو ہندوتوا کے علمبردار بنا کر اس ملک کی برسوں پرانی تاریخ کو روندتے جارہے ہیں جبکہ ملک کا سیکولر ذہن ان کی مخالفت میں ہر دم آگے آرہا ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے ملک میں جس طرح کا نفرت پر مبنی ماحول بنایا گیا ہے، اس کے آگے ہر متعصب ذہن رقصاں ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کے عوام کو گمراہ کرنے والی طاقتیں اب تک اپنے مقاصد میں اس لئے کامیاب نہیں ہوپارہی ہیں کہ اس ملک کے دیگر اقوام بھی فرقہ پرستی کے خلاف ہیں۔ قوم پرستی کے نام پر فرقہ پرستی کو ہوا دینے کے واقعات کے درمیان اگر ہندو قائدین یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں رہنے والا ہر شہری کا ہندو ہونا لازمی نہیںہے جیسا کہ گذشتہ دنوں آر ایس ایس سربراہ بھاگوت نے یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے۔ اس پر جوابی وار کرتے ہوئے ہندوگرو آچاریہ نے آر ایس ایس سربراہ کی اس تیڑھی نفرت پر مبنی منطق کو مسترد کردیا۔ موہن بھاگوت سے قبل ان کے پیشرو کے سدرشن نے بھی ہندوستان میں رہنے والوں کو ہندو قرار دیا تھا اور یہ بھی ریمارک کیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی رگوں میں ہندوؤں کا خون دوڑ رہا ہے۔ یہ مذہبی کٹر پسند لوگ اپنی ذہنی اختراع کے ذریعہ غیراصول باتیں کرتے ہوئے ہی فرقہ پرستوں کو مضبوط بناتے آرہے ہیں۔ چیف منسٹر کرناٹک سدارامیا نے بی جے پی کے ہندوتوا نطریہ کو سوالیہ نشان لگاتے ہوئے یہ پوچھا کہ آیا بی جے پی والوں نے ’’ہندوازم‘‘ کو لیز پر لے لیا ہے، کیا صرف بی جے پی قائدین ہی ہندو ہیں؟ کیا ہم ہندو نہیں ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی ہندوازم کو لیز پر لے کرخود کو ہندوتوا کی علمبردار سمجھ رہی ہے جبکہ سدارامیا کی نظر میں تمام مذاہب کی عزت کرنا ہی اصل حقیقی ہندوتوا ہے۔ ہم تمام ہندو ہیں لیکن ہم کو تمام مذاہب کا احترام کرنا ضروری ہے۔ ہم کو اس حقیقت کا بھی احترام کرنا ہوگا کہ ہم تمام ایک جیسے انسان ہیں یہی ہمارا کلچر ہے۔ یہی اصل ہندوتوا ہے۔ بی جے پی اور اس کے قائدین نے ہندوتوا کو اپنے نظریہ سے پھیلا کر ملک بھر میں نفرت کا ماحول مضبوط بنارہی ہے جو آگے چل کر خطرناک تباہ کن کیفیت کا باعث ہوسکتا ہے۔ ملک کے سیکولر عوام کو خاص کر اقلیتوں کو چاہئے کہ وہ ملک کے دیگر ابنائے وطن خاص کر سیکولر مزاج قائدین اور افراد کو ساتھ لیکر نام نہاد ہندوتوا طاقتوں کے خلاف صف آراء ہوجائیں۔ بی جے پی کرناٹک میں آئندہ اسمبلی انتخابات کی تیاری کیلئے کرناٹک کی سیکولر فضاء کو بگاڑنے کی کوشش کررہی ہے۔ حال ہی میں اترپردیش کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ یوگی نے کرناٹک کے شہر ہبلی کاد ورہ کرتے ہوئے یہاں کے عوام کے ذہنوں کو زہرآلود کرنے کا کام کیا۔ کرناٹک کی کانگریس حکومت پر الزام عائد کیاکہ وہ بھگوان ہنومان کی اس سرزمین کو ٹیپوسلطان کے چاہنے والوں کی زمین بنارہی ہے۔ یہ قائدین تھوڑے سے سیاسی فائدہ کے لئے ملک اور ریاستوں میں نفرت کا زہر پھیلا رہے ہیں۔ یقینا اس پالیسی کی وجہ سے بی جے پی نے اب تک ملک کی کئی ریاستوں میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس کی اختلافاتی پالیسیوں میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ اس طرح کا بحران پیدا کرکے وہ ووٹ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیکولر عوام کو چاہئے کہ وہ ان منافرت پھیلانے والوں کو آشکار کرکے صاف ذہن کے حامل عوام کو متحد کریں۔ مسلمانوں کو اب ماضی میں زندگی کرنے یا ذہنی پستی میں رہنے کے بجائے مستقل کی تیاری کرنے میں ہی عین دانشمندی ہے۔ فی الحال ملک میں ایسا کوئی بڑا بحران تو نہیں لیکن جس طرز پر حکمرانی کی جارہی ہے اور جس طریقہ سے بی جے پی قائدین نفرت کی لکیروں کو گہرا کرتے جارہے ہیں اس سے بے خبر رہنا بہت بڑی تباہی کی پیشن گوئیوں کی علامت سمجھی جائے گی۔ ہمارے قائدین ناک کے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ان کا زیادہ تر وقت اختلافات کو ہوا دینے اور ووٹ کاٹنے میں صرف ہورہا ہے۔
شمالی کوریا پر مزید سخت پابندیاں
امریکہ کے کسی بھی شہر کو نشانہ بنانے والی شمالی کوریا کے بالسٹک میزائل نے اس ملک کے سربراہ ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو مزید سخت بنانے کا موقع دیا تھا۔ اقوام متحدہ نے بھی اب شمالی کوریا پر نئی سخت ترین پالیسیاں و پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پٹرولیم اشیاء کی سربراہی کو 90 فیصد تک گھٹا دینے کے فیصلہ کے بعد شمالی کوریا کو اپنی پٹرولیم ضروریات کی تکمیل کیلئے متبادل راستوں کو تلاش کرنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے شمالی کوریا کے حکمراں کم جونگ ان کی طرف سے 19 نومبر کو کئے گئے بین براعظمی بالسٹک میزائل تجربہ کے بعد سخت پابندیوں کے لئے مجبور ہوگیا ہے۔ عالمی برادری کو بھی تشویش لاحق ہوگئی ہے۔ شمالی کوریا پر پابندیوں کی دھمکیوں یا سخت کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔ ماضی میں بھی عالمی برادری نے شمالی کوریا کو اس طرح کے فیصلوں کے ذریعہ دھمکانے اور اس کے نیوکلیئر عزائم سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن شمالی کوریا نے اس طرح کی دھمکیوں یا سخت عالمی اقدامات کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان طاقت آزمائی کی مشقیں نئی نہیں ہیں لیکن حالیہ دونوں ملکوں کی حکومتوں نے خاص کر صدر امریکہ کی حیثیت سے ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے تنازعات اور دشمن کو دعوت دیدی ہے اس لئے شمالی کوریا مسلسل امریکہ کو آنکھیں دکھارہا ہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے ارکان کا احساس ہیکہ شمالی کوریا پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال کر اس کے نیوکلیئر عزائم کا سیاسی و سفارتی حل نکالنے کی کوشش کی جائے مگر امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان بڑھتے جنگ کے خطرات نے صورتحال نازک بنادی ہے اگرچیکہ دونوں ممالک کے لئے کسی بھی قسم کی جنگی کارروائی بھاری نقصان کا باعث ہوگی۔ لہٰذا عالمی برادری کو بھی کسی سخت کارروائی سے قبل باہمی بات چیت، سفارتی، سیاسی کوششوں کو آخر تک لے جانے کی ضرورت تھی۔