سیکولر پارٹی میں پھوٹ

اپنے وطن میں اہل سیاست کی کشمکش
دشمن بنی ہوئی ہے عوامی سکون کی
سیکولر پارٹی میں پھوٹ
انتخابات سے قبل کسی پارٹی میں پھوٹ کی خبریں معمول کا عمل ہے ۔ انتخابات کے بعد سیاستدانوں کو خریدنے کا ناپسندیدہ عمل بھی عام ہورہا ہے ۔ بہار کی سیاست میں آر جے ڈی کو مضبوط قیادت حاصل ہے اس کے باوجود اس کے صدر لالو پرساد یادو کی اپنی پارٹی پر گرفت کمزور پڑگئی جس کی وجہ سے آر جے ڈی کے 13 ارکان اسمبلی کا پارٹی چھوڑکر چیف منسٹر نتیش کمار کی صف میں شامل ہونے کا واقعہ رونما ہوا ۔ لالو پرساد یادو نے اس پھوٹ کے امکان کو مسترد کردیا ہے ۔ تاہم 13 ارکان کے منجملہ 9 ارکان کی پارٹی میں واپسی کا دعویٰ کررہے ہیں۔ انھوں نے اپنی پارٹی کی اکثریت دکھانے کے لئے 9 ارکان اسمبلی کے ہمراہ ریاستی اسمبلی تک مارچ نکالا۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ان کی پارٹی میں کوئی پھوٹ نہیں ہوئی ہے ۔ سیاسی پارٹیوں میں اختلافات یا وفاداریاں تبدیل ہونے کے واقعات پھر ایک بار رونما ہورہے ہیں۔ انتخابات کے عین موقع پر ملک میں سیکولر پارٹیوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کا مطلب یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کو اپنے قدم جمانے کیلئے دوسری بیساکھیوں کاسہارا لینا ضروری ہوگیا ہے ۔ آر جے ڈی میں پھوٹ ایک بدبختانہ واقعہ ہے چونکہ سابق میں پارٹی سیاسی اعتبار سے سیکولر کردار کے حامل ہونے کی وجہ سے قومی سطح پر موثر کردار ادا کرسکی تھی ۔ لالو پرساد یادو نے اپنی پارٹی کو اتنا کمزور ہونے کا موقع دیا ہے ۔ پارٹی کے اندر ڈسپلین کا فقدان کمزوری کی علامت بن جاتا ہے ، ملک کو ایک مضبوط سیکولر گروپ کی ضرورت ہے ۔ وزیراعظم کے امیدوار کی حیثیت سے بی جے پی نے نریندر مودی کو منتخب کیا ہے تو سیکولر کردار کی حامل پارٹیوں کو بہرحال کمزور کرنے کی ہرسمت سے کوشش کی جائے گی تاکہ یہ طاقتیں تیسرے محاذ کاباعث بننے کی کوشش نہ کرسکیں۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار پر الزام عائد ہے کہ انھوں نے آر جے ڈی کے ارکان اسمبلی کو لالچ دے کر خریدنے کی کوشش کی ہے ۔ راشٹریہ جنتادل کے 22 ارکان ہیں ۔ ان میں سے 13 ارکان اسمبلی کی پارٹی سے بغاوت اور بعد ازاں چند ارکان کی پارٹی میں واپسی کی خبریں بہار کی سیاست میں دولت ، طاقت اور دھونس کی سیاست کا احیا ہوتے دکھائی دے رہا ہے ۔

آج کے نازک دور میں سیکولر پارٹیوں کا اعتبار متزلزل ہوجائے تو اس کا فائدہ راست فرقہ پرستوں کو حاصل ہوگا ۔ یہ فرقہ پرست طاقتیں سیکولر پارٹیوں کو نام نہاد سیکولر پارٹیاں ہونے کا ادعا کرتی رہی ہیں۔ اب آر جے ڈی میں پھوٹ نے ان کے دعویٰ کو ثابت کردیا ہے کہ نام نہاد سیکولر کردار کے حامل لیڈروں کو لالو پرساد یادو نے اپنی صف میں پروان چڑھایا تھا ۔ سیاسی کھیل اور تماشے کے اس دور میں کسی بھی پارٹی کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔حال ہی میں دہلی میں رشوت کے خلاف مہم چلاکر اقتدار حاصل کرنے والی عام آدمی پارٹی کو بھی پھوٹ سے دوچار کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ داخلی طورپر اروند کجریوال کو شدید دھکا پہونچانے کاسیاسی منصوبہ بنایا گیا لیکن پارٹی کی حکومت کسی پھوٹ کا شکار ہونے سے قبل ہی مستعفی ہوگئی اور عوام میں پارٹی کا اعتبار متزلزل نہیں ہوا ۔ ورنہ بڑی پارٹیوں کے نزدیک چھوٹی پارٹیوں کو کمزور کرنے کیلئے تمام جائز ناجائز حربے ہوتے ہیں۔ آر جے ڈی میں پھوٹ کے بعد نتیش کمار نے یہ بیان دے کر شک کو مزید مستحکم کیا تھا کہ کسی بھی پارٹی کے لیڈر کو ان کی پارٹی میں آنے کی کھلی اجازت ہے، ہر لیڈر کا وہ خیرمقدم کرتے ہیں۔ انھیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ اگر جنتادل یو کے ارکان اسمبلی ان کی پارٹی سے منحرف ہوکر راشٹریہ جنتادل میں آجائیں تو ان کی حکومت کی پوزیشن کیا رہے گی ۔ یہ انتخابات کا سال ہے تو سیاست میں ہر واقعہ رونما ہونا ممکن ہے ۔ گجرات میں بی جے پی نے لیڈروں کی سودے بازی شروع کی ہے تو بہار میں نتیش کمار کی پارٹی جنتادل یو نے دوسرے ارکان کو خریدنے کی کوشش کی ہے ۔

اس طرح کے الزامات کا الیکشن کمیشن کو نوٹ لینا چاہئے مگر اس ملک کے جمہوری طرز سیاست کی یہی خامی ہے کہ یہاں انتخابات سے قبل ضابطہ اخلاق نافذ ہونے تک سیاستدانوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے ۔ مگر ہندوستان میں ضابطہ اخلاق کے اطلاق کے باوجود سیاستدانوں کو متعدد بار خلاف ورزیاں کرتے ہوئے دیکھاگیا ہے ۔ ان کے خلاف صرف کاغذی کارروائی ہوتی ہے ۔ ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ کسی لیڈر کے انحراف کرنے سے اسے سرگرم سیاست سے ہمیشہ کے لئے معطل کردیا جائے ۔ جمہوریت کا یہی تقاضہ ہے کہ ہر ایک کو اپنی مرضی سے پارٹی بنانے ، سیاست کرنے اور پارٹیوں میں آنے جانے کی آزادی حاصل ہے ۔ فرقہ پرستوں کے کھلے عام سیکولر ڈھانچہ کو دیئے جانے والے چیلنجس نے ملک کو ایک نازک صورتحال کے دور میں لے گیا ہے ۔سنجیدہ حلقوں میں بحث کا موضوع یہی ہے کہ آیا ملک پر آئندہ حکومت فرقہ پرستوں کی ہوگی ۔