بول بالا ہر طرف فرقہ پرستی کا ہوا
یہ سیکولر طاقتوں کی شامت اعمال ہے
سیکولر پارٹیوں کیلئے لمحہ فکر
مہاراشٹرا و ہریانہ اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد تمام غیر بی جے پی سیاسی پارٹیوں کو اپنی انا کی چار دیواری سے نکل کر اعتماد کی صف بنانے کی ضرور ہوگی ۔ہریانہ میں انڈین نیشنل لوک دل اور مہاراشٹرا میں شیو سینا کی شکست سے علاقائی پارٹیوں کے اثر کو کم کرنے والی بی جے پی نے فیصلہ کن موقف اختیار کرلیاہے ۔ مہاراشٹرا میں ما قبل انتخابات کانگریس اور این سی پی اتحاد کے توڑ دینے کے نتیجہ میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی اور بی جے پی ،شیو سینا 25 سالہ دوستی کو بھی ختم کرنے سے بی جے پی کو اقتدار کے حصول کیلئے دوسری پارٹیوں کی تائید حاصل کرنی پڑرہی ہے اگر بی جے پی کو اقتدار سے روکنا ہے تو کانگریس، شیو سینا، این سی پی کو اتحاد کرنا پڑے گا لیکن شیو سینا کا نظریہ اور مزاج مخالف سیکولر ہے۔ ان دونوں ریاستوں کے اسمبلی انتخابات نے اپوزیشن کیلئے ملک بھر میں اپنا ایک مرکزی مقام تلاش کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ یہ موقع بھی مل رہا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنی حکمت عملیوں پر نظر ثانی کریں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پارٹیوں نے سوچنے کا کام بھی ٹھیکے پر دے رکھا ہے۔ کانگریس کیلئے خاص کر یہ سوچنے کا مقام ہے کہ اسے پے در پے ناکامی کیوں ہورہی ہے ، اپنے اہداف میں اب تک کی واضح ناکامی کے بعد کانگریس بدستور سوچنے اور غور و فکر سے دور ہے۔ اس لئے بی جے پی کے حامیوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ ذات پات رنگ و نسل اور مذہب و طبقہ داری سیاست کو بہترین حکمرانی اور ترقی کے نعرے نے شکست دیدی ہے۔ اسکے ساتھ علاقائی پارٹیوں کو بھی دھکہ لگ رہا ہے۔ مہاراشٹرا میں این سی پی نے کانگریس کا اتحاد توڑ کر بی جے پی کے ہاتھ مضبوط کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے تو اس طرح کی نقلی سیکولر پارٹیوں سے ہوشیار رہنے کا وقت آگیا ہے ۔ فرقہ پرستوں کو بڑھاوا دینے میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم کیلئے امیدوار کو کھڑا کرنے کی پالیسی بھی معیوب اور افسوسناک ہے۔ مہاراشٹرا میں کانگریس امیدوار کو محض اس لئے شکست ہوئی کیوں کہ سیکولر ووٹوں کو تقسیم کرنے کیلئے غیر علاقائی پارٹی نے سیاسی بددیانتی سے انتخابی میدان میں اپنے امیدوار کھڑا کئے تھے مسلم ووٹ کو توڑتے ہوئے فرقہ پرستوں کے ہاتھوں کو مضبوط بنانے والے ملت کے نام پر سیاسی فوائد بٹورنے میںکامیاب ہوئے ہیں۔ اگرچیکہ ان انتخابات میں تمام پارٹیوں نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے ہوئے مقابلہ کیا تھا ۔ ان کے نظریات مختلف تھے اس کے باوجود زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی متمنی تھے اب ان پارٹیوں کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے تو وہ اپنے ہی سیاسی حریفوں کو اقتدار تک لے جانے کیلئے تائید کررہے ہیں سیکولر پارٹیوں کیلئے یہ وقت مل کر چلنے کا ہے ۔ اس لئے کاروباری سیاست کو علاقائی یا ملکی سیاست پر غالب ہونے نہ دیں ۔ مہاراشٹرا میں کانگریس اور این سی نے گذشتہ 15 برسوں میں جو کچھ بویا تھا ان کے اختتام پر کم و بیش وہی کچھ کاٹا ہے ۔ بی جے پی اور شیو سینا نے اپنی 25سالہ دوستی کو توڑ کر اپنے حامیوں کو ناراض کیا تھا اس کے نتیجہ میں بی جے پی اور شیو سینا دونوں کو بھی قطعی اکثریت حاصل نہیں ہوسکی ۔ ان پارٹیوں سے جو اسٹریٹجک غلطیاں ہوئی ہیں ان نتائج کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ فرقہ پرست جماعتیں سیکولر دھارے کو کاٹ چکی ہیں۔ اگر قومی سیاست کو علاقائی رنگ دینے کا یہی چلن زور پڑکے تو پھر ریاستوں میں مقامی سیاسی پارٹیوں کی بڑھتی تعداد سے کچھ رکاوٹ نہیں ہوگی۔ اب جیسا کہ نریندر مودی کی بی جے پی کو اقتدار پر قائم رہنے کیلئے اناڈی ایم کے یا ڈی ایم کے جیسی پارٹیوں کی ضرورت نہیں ہوگی تو مرکز میں گذشتہ دو دہوں سے جاری مرکزی اتحاد کا دور بھی ختم ہوگیا ہے۔ رائے دہندوں میں شعور کے باوجود قیادت کے انتخاب میں لا شعوری کا مظاہرہ ہوتا ہے تو نتائج سیکولر مزاج کے برعکس ہی آئیں گے ۔ قسمت نے نریندر مودی پر مہربانی کی ہے اسی لئے وہ ریاستی سح پر حکومت بنانے کیلئے کامیاب ہوئے ہیں۔ اب عوام کو اندازہ ہونے لگے گا کہ انہوں نے صحیح فیصلہ کیا تھا یا غلط کیوں کہ کسی سیاستداں کو بے نقاب کرنے کا طریقہ اسے مسترد کرنا نہیں بلکہ منتخب کرنا اور بااختیار بنانا ہے لہذا سیکولر ہندوستان کے عوام نے فرقہ پرستوں کو ووٹ دے کر آزمائش و ابتلاء کی بھٹی میں ڈھکیل دیا ہے ۔ آئندہ 5 سال تک غیر بی جے پی پارٹیوں کو اپنے وجود کا احساس دلانے کی فکر کرنی چاہئے ورنہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے بنائے گئے منصوبے کامیاب ہونگے ۔ آئندہ 2015 تک بی جے پی اور اس کی نظریاتی تنظیموں کو کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے ۔ مودی کا اگلا قدم کابینہ میں توسیع اور بعض اہم قلمدانوں میں ردوبدل ہوگا اب جو کچھ کیا جائے اسے قومی ترقی میں رکاوٹ بننے نہیں دینا چاہئے۔