سیکولر حکمرانی کی ضرورت

ہندوستانی مسلمانوں کے لئے سال نو کے موقع پر کئی ایک سوال پیدا کئے جارہے ہیں۔ ہندو تنظیموں کے گھر واپسی پروگرام کو لے کر نریندر مودی حکومت کو شدید تنقیدوں کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود یہ حکومت خود کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش نہیں کررہی ہے۔ فرقہ پرستوں کی جانب سے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوششیں مسلسل ہورہی ہیں تو یہ تشویشناک شروعات ہے۔ ہندو تنظیموں نے پہلے ’’لو جہاد‘‘ کو موضوع بنایا پھر تبدیلی مذہب کا سہارا لیا اور کبھی بیٹی بچاؤ بہو لاؤ کا نعرہ دے کر مہم چلائی گئی۔ اس کے بعد بالی ووڈ اداکار عامر خان کی فلم ’پی کے‘‘ کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ ہندو بھگوانوں کی توہین کرنے کا الزام عائد کرکے تھیٹروں پر حملے کئے گئے۔ فلم روک دینے کا مطالبہ کیا گیا جبکہ ماضی میں اس طرح کے موضوعات پر کسی ہندو اداکار نے بھگوانوں کا تمسخر اُڑایا تو کسی کو کوئی بُرا دکھائی نہیں دیا۔ عامر خان چونکہ مسلمان ہیں تو فرقہ پرستوں کو نیا موضوع ہاتھ لگ گیا ہے۔ جبکہ فلم میں اداکار عامر خان کے سوا تمام ذمہ داران ہندو طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو تقویت دینے کے لئے ہندو تنظیمیں کچھ نہ کچھ بہانہ تلاش کررہی ہیں۔ فرقہ پرستی اور مذہب کے نام پر انسانی معاشرہ کو تقسیم کرنے کی کوشش سے ملک کے اندر اقلیتوں میں عدم تحفظ کا خوف پیدا کیا جارہا ہے۔

بنگلور میں ہوئے حالیہ بم دھماکہ کے واقعہ کو سیمی کے سر تھوپ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ کرناٹک میں ہندو انتہا پسند تنظیمیں بھی سرگرم ہیں۔ جو ماضی میں اس طرح کے دھماکوں کے کیس میں ملوث رہی ہیں۔ اس مرتہ بھی ایک ہندو تنظیم پر شبہ کیا جارہا ہے۔ مگر دہشت گرد کارروائیوں کے لئے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا مقصد اس طبقہ کو ذہنی اور جسمانی طور پر اذیت دے کر مسلم سماج کو مایوسی، پریشانی اور مصائب کے حالات سے دوچار کرنا ہے۔ دہشت گردی اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا سلسلہ صرف ہندوستان تک محدود نہیں ہے بلکہ ساری دنیا میں خاص کر مغرب میں مسلمانوں کو دہشت گردی کے واقعات سے مربوط کردیا جاتا ہے۔ مغربی ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کو کسی بھی دہشت گرد واقعہ کے بعد شدید ردعمل اور جوابی ردعمل کا خوف رہتا ہے۔ مسلمانوں پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ دہشت گرد کارروائیوں کی مذمت کریں۔ ہر ایک مسلمان کو شبہ کے دائرہ میں گھسیٹا جاتا ہے۔

ستمبر 2001 ء کے فوری بعد امریکی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مغربی ملکوں کے مسلمانوں کو عوام کی شدید برہمی اور نفرت کا شکار ہونا پڑا۔ اور اس وقت کے صدر امریکہ جارج بش کو اپنے ملک میں پیدا ہونے والی نفرت کے ماحول کو دور کرنے کے لئے فوری بیان دینے پڑے تھے کہ امریکی مسلمان بھی حب الوطنی اور امن پسند ہیں۔ ان پر حملہ کرنے والا امریکی نہیں ہوسکتا۔ لیکن عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف پیدا کی جانے والی نفرت کی لہر میں کمی آچکی ہے۔ مگر ہندوستان میں فرقہ پرستوں کو مرکز کی مودی حکومت کی وجہ سے جو حوصلہ مل رہا ہے وہ ایک خطرناک مستقبل کا اشارہ دے رہا ہے۔ ایسے میں ہندوستانی مسلمانوں کو اجتماعی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سلامتی کے لئے فوری حرکت میں آنا ہوگا جو طاقتیں سماج کو مختلف خانوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بات کئی مرتبہ واضح ہوچکی ہے کہ ہندو فرقہ پرستوں نے ہی امن میں رخنہ ڈالنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے اختیار کئے ہیں۔ اب ان کی طاقت و اقتدار کے سارے سرچشمے ہندوستانی عوام کے ووٹوں سے پھوٹتے جارہے ہیں اور اپنی ناپاک سرگرمیوں کو اندھا دھند طریقہ سے جاری رکھنے کو حق سمجھ رہے ہیں۔

ہندوستان کی سیکولر تاریخ کو ایک خشک مضمون کے طور پر پڑھنے اور سمجھنے والی مودی حکومت کو فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ دینے کی مجرمانہ غفلت کا سودا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنا جواب تیار کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ سیکولر ہندوؤں اور سیکولر پارٹیوں و معاشرہ کے امن پسند انسانوں کو ہندو فرقہ پرستوں کی سازشوں سے واقف کرواکر انھیں یکا و تنہا کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کے حق ووٹ کو ایک فرقہ پرست حکومت کے ایجاد کردہ ٹولوں کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ وہ مسلمانوں کو خوف و ہراس کے ذریعہ یرغمال بنالیں۔ منصب اقتدار پر فائز حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے دستوری فرائض کو بخوبی انجام دے۔ نئے سال کے ساتھ ہی نریندر مودی حکومت کو سیکولر بننے اور ایک نئی اُمید کے ساتھ حکمرانی کے فرائض انجام دینے پر توجہ دینی ہوگی۔ ہندوستان بھر میں مخالف مسلم کارروائیوں کو ہوا دینے والی طاقتوں پر قابو پانا ان کے حوصلے پست کرنے کے لئے قانونی اقدامات ناگزیر ہیں۔ ورنہ آنے والے دنوں میں فرقہ پرست طاقتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کے لئے کام کریں گے۔