سیکولر انتخابی عمل

کچھ اضطرابِ غمِ دل میں ہے کمی شائد
تسلیوں کیلئے غمگسار آئے ہیں
سیکولر انتخابی عمل
سیاسی پارٹیوں کیلئے واضح طور پر بتادیا گیا ہیکہ وہ اپنے ووٹ مانگنے کے عمل میں سیکولرازم کے پہلو کو اختیار کریں۔ کسی بھی پارٹی کیلئے مذہب، ذات پات، علاقہ واریت کے نام پر ووٹ مانگنا بدعنوانی اور سیکولر ہند کے دستوری اصولوں کے مغائر مانا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے پانچ ریاستوں میں آنے والے اسمبلی انتخابات سے قبل ایک دور رس نتائج کے حامل فیصلہ میں ہندوستانی روایات اور سیکولر مزاج کو اولیت دی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو کھلے طور پر ہدایت دی گئی ہیکہ وہ صرف اور صرف سیکولر اساس پر انتخابی میدان میں قدم رکھیں۔ انتخابات کو ایک سیکولر عمل سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ذات پات، مذہب، نسل، فرقہ یا زبان کی بنیاد پر ووٹ دینے کی اپیل دراصل انتخابی قانون کی دفعات کے تحت رشوت و بدعنوانی کے عمل کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک ایسے اہم وقت سامنے آیا ہے جب ملک بھر میں خاص پارٹی کی مخصوص سوچ اور لابی نے ملک کو فرقہ پرستانہ ماحول سے دوچار کردیا ہے۔ کل ہی کی بات ہے لکھنؤ میں منعقدہ عوامی ریالی کو کامیاب بنانے کیلئے سیاسی پارٹی نے ڈرامائی موقف کے ساتھ عوام کی کثیر تعداد کو جمع کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس ملک کی ہر ریاست میں عوام اب صرف ایک خاص جماعت کے حامی ہیں۔ ریالیوں میں عوام الناس کی کثیر تعداد کو دیکھ کر کوئی پارٹی اپنے سیاسی وزن کا اندازہ کرتی ہے تو یہ اس کی بھول ہوگی اور آرگنائز کرکے کسی ہجوم کو جمع کرنے اور عوام کا اپنے بل پر کسی ریالی کی جانب پہنچنے میں فرق ہوتا ہے۔ ہندوستان میں حالیہ برسوں سے خاص کر 1990ء کے بعد سے مذہب کو سب سے زیادہ بڑھاوا دی نے والی پارٹی بی جے پی نے سارے ملک کے سیکولر ذہنوں کو پراگندہ کردیا ہے۔ 1980 میں لوک سبھا کے اندر صرف دو ارکان اسمبلی رکھنے والی اس پارٹی نے مذہب کے نام سے سارے ملک کے عوام کے ذہنوں میں نفرت اور مذہبی منافرت کو ہوا دی ہے۔ نتیجہ میں آج سیکولر ملک اپنے ہی ماتھے پر فرقہ پرستی کا داغ لگتا دیکھ رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے بی جے پی اور دیگر فرقہ پرستوں کی بڑھتی قوت اور نفرت پر مبنی مہم کو بڑھاوا دینے کے واقعات کے درمیان یہ اکثریتی فیصلہ سنایا ہے تو اس پر عمل آوری ہر پارٹی کا فرض بن جاتا ہے۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اور دیگر 3 ججوں نے 4:3 کی اکثریت کے ساتھ فیصلہ میں قانون عوامی نماندگی کی رشوت و بدعنوانی کے عمل سے نمٹنے سے متعلق دفعہ (3) 123 کے تحت استعمال کردہ ’’اس مذہب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب رائے دہندوں، امیدواروں اور ان کے ایجنٹوں کے بشمول تمام کا مذہب ہوتا ہے۔ لہٰذا سپریم کورٹ کی بنچ نے مذہب کے نام پر عوام الناس میں فرق پیدا کرنا ان میں تفرقہ کو ہوا دے کر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط بنانا رشوت ستانی کی تعریف میں آتا ہے۔ سپریم کورٹ نے مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کو ایک بدترین رشوت ستانی مانا ہے تو اب حکمراں پارٹی کیلئے یہ فرض بن گیا ہیکہ وہ رشوت ستانی کے خلاف اپنی مہم کو شفاف اور غیرجانبدار بنا کر مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کی ترکیب کو ترک کردے مگر ہندوستان میں جس پارٹی کی بنیاد مذہب کے نام پر ہی رکھی گئی ہے جس کا نظریہ مذہبی امور پر محیط ہے تو پھر ہندوستان کو ایک سیکولر ملک بنانے میں وہ ہرگز دلچسپی نہیں لے گی۔ ایسے میں سپریم کورٹ کا رول کیا ہونا چاہئے یہ بھی غور طلب ہوگا۔ اگر سپریم کورٹ اپنے اس فیصلہ کی روشنی میں مذہب کا سہارا لینے والی پارٹیوں پر شکنجہ کسنے کا اختیاری عمل کو ترجیح دیتی ہے تو پھر اس کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والی پارٹیوں اور مذہب کے نام پر سیاسی پرچار میں مصروف سیاستدانوں کیلئے کیا سزاء تجویز کرے گی یہ عدالت عالیہ ہی کو طئے کرنا پڑے گا۔ انتخابی قانون میں یہ وضاحت نہیں کی گئی ہیکہ انتخابی تقریر کے دوران کسی مذہب، ذات، نسل، طبقہ با زبان کا حوالہ نہیں دیا جانا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے اس نازک موضوع پر گذشتہ دو دہوں سے بحث و مباحث کی سماعت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہیکہ اس کی ا صل روح کو مسخ کئے بغیر ہی من و عن روبہ عمل لایا جانا چاہئے۔ کسی بھی اقتدار کے ساتھ مذہب کو خلط ملط کردیا جائے تو حکمرانی کے فیصلے اور ترقیاتی و فلاحی اقدامات کا رخ خاص مذہب کے رائے دہندوں کی جانب ہوگا اور ماباقی ہندوستانی عوام اس طرح حکومت کے امتیازات کا شکار ہوجائیں گے۔ ہر ایک شہری اور لیڈرکو اپنے کردار میں سیکولر مزاج کو فروغ دینا ہوگا جس کے بعد ہی اس ملک کا سیکولرازم قوی و مستحکم ہوگا۔ عدالت کا یہ فیصلہ آنے والے دنوں میں پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات پر غیرمعمولی طور پر اثرانداز ہوگا خاص کر یو پی میں جہاں بی جے پی، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی کو اپنے رائے دہندوں تک پہونچنے کیلئے حکمت عملی اختیار کرنی ہے تو اب ان کی انتخابی پالیسی سپریم کورٹ کے مذکورہ حکمنامہ کا آئینہ دار ہونی چاہئے۔