کیسے میں پہنچوں منزلِ ژرف و نگاہ تک
حائل ہے میری راہ میں دیوار جابجا
سیکولر اتحاد کی کامیابی
ضمنی انتخابات میں روایت کے اعتبار سے حکمران پارٹی ہی ہمشیہ انتخاب جیت جاتی ہے ۔ بہار میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں 10 کے منجملہ 6 نشستوں پر جنتادل دل یو، آر جے ڈی اور کانگریس اتحاد کو کامیابی ملی ہے تو یہ کوئی خاص تبدیلی نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس کو ایک نشست ملی ہے اور کرناٹک میں سدرامیا نے اپنی چیف منسٹری کو مضبوط کرلیا ہے کیونکہ کانگریس کے اندر کرناٹک قیادت کو لیکر زبردست دباو پڑ رہا تھا پنجاب کا نتیجہ بھی کانگریس کے حوصلے کو بڑھاتا ہے تو اس پارٹی کو آنے والے چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کی تیاری بھی پورے ہوش و حواس سے کرنی ہوگی۔ جنتادل یو آر جے ڈی اور کانگریس کا بہار سیکولر اتحاد صرف 6 نشستوں کوکامیاب کر کے بی جے پی کے امکانات کو ضرب پہونچانے کا جشن منارہا ہے تو یہ کوئی بڑی کامیابی نہیںہے۔ آئندہ سال ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات یہ ثابت کریں گے کہ ملک کی دوسری سب سے بڑی ریاست کے عوام نے سیکولر طاقتوںکا ساتھ دیا ہے یا فرقہ پرستوں نے اپنا اثر برقرار رکھا ہے ۔ یہ ضمنی انتخابات کے نتائج بلا شبہ ترقی پسند ہونے کا دعوی کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی کیلئے توجہ طلب ہیں ۔ صرف 3 ماہ کے اندر رائے دہندوںنے بی جے پی کو نظر انداز کردیا ہے تو وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لینے والے نریندر مودی کی انتخابی وعدوں سے مایوس عوام کا جواب ہوسکتا ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں ترقی کے نام پر نریندر مودی نے رائے دہندوں کو رجھانے کی ہر ممکنہ کوشش کی تھی لیکن عوام نے ضمنی انتخابات میں اپنا جواب دیدیا ہے ۔ بی جے پی کو جملہ 18 نشستوں کے ضمنی انتخابات میں صرف 7 نشستوں پر کامیابی ملی ہے اس کی حلیف پارٹی کو ایک نشست حاصل ہوئی اس کا مطلب بی جے پی کو 45 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ بہار میں بی جے پی نے 4 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے 40 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں تو اس کے سامنے سیکولر اتحاد کی کامیابی بھی کوئی خاص معنی نہیں رکھتی ۔ سیکولر فورس کو ابھی مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کومودی حکومت کی پالیسیوں اور کارکردگی سے واقف کراتے ہوئے چوکنا رکھنے کی ضرورت ہے ۔ آر جے ڈی اور جنتادل کو علاقائی پارٹیاں ہونے کا موقف حاصل ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی ہی قومی سطح پر دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں ایسے میں اگر جنتا دل یو یا آر جے ڈی کو ایسے دوست ملے ہیں تو یہ ریاستی یا علاقائی سطح کی کامیابی کہلاتی ہے ۔ اس میں قومی پارٹی کانگریس کے کمزور مظاہرہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ بی جے پی کے مقابلے کانگریس کا سیاسی موقف کمزور ہی ہے ۔ تاہم ضمنی انتخابات میں بی جے پی نے بھی کمزور مظاہرہ کیا ہے تو یہ دو قومی پارٹیوں کیلئے سبق ہے کیوں کہ عوام حقیقی وفاقیت کو ترجیح دینا چاہتے ہیں ۔ ترقی و پیداوار پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ سماج کا باشعور طبقہ وہ ہے جو سرکاری ملازمتوں اور روزگار سے وابستہ ہے جبکہ متوسط طبقہ کھانے اور کھلانے تک ہی کی جدوجہد میں مصروف ہے ملک کے اکثریتی طبقہ کا تعلق غربت سے ہے جو حکومت اور متمول شہریوں کے رحم و کرم پر زندہ ہے ۔ سرکاری سبسیڈیز و اسکیمات سے استفادہ کرنے کی آس و امید میں یہی طبقہ اپنے ووٹ دے کر حکومت بناتا ہے تو پھر ہر اس سیاسی پارٹی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ غریبوں کے مسائل حل کرنے سے وہ ان کے قریب ہوجائے گی ۔ علاقائی پارٹیوں کو مقامی غریب افراد کی ہمدردی اس لئے حاصل ہوتی ہے کیوں کہ وہ ان کے بہت قریب ہوتی ہے جبکہ قومی پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی نے ان کے مسائل کو صرف وقتی طور پر سمجھا اور فراموش کردیا ہے ۔ لہدا ضمنی انتخابات کے نتائج قومی پارٹیوں خاص کر کانگریس کیلئے ایک سبق ہیں اگر اس نے اپنے کیڈر کو علاقائی سطح پر مضبوط نہیں کیا ، مقامی عوامی مسائل کی یکسوئی کیلئے دن رات جدوجہد نہیںکی تو اسے ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہاتھ دھونا پرے گا ۔ عوام صرف علاقائی جماعتوں کو ووٹ دینے کے عادی ہوں گے پھر سیکولر اتحاد اور فرقہ پرستوں کے ٹولے کے درمیان جس قسم کا سیاسی ٹکراو ہوا ہوگا اس سے غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ بہار کا تجربہ بتاتا ہے کہ کانگریس کو اپنے لئے کچھ کرنا ہے ۔ نریندر مودی نے گجرات کی جھوٹی ترقی کی خوبصورت تصویر دکھاکر ملک کے عوام کو گمراہ کیاہے تو آئندہ پانچ سال میں ملک کی ترقی کا دعوی بھی میڈیا کے ذریعہ فرضی ہوگا ۔ اس سے یہ اندازہ کرلینا چاہئے کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں علاقائی یاسیکولر اتحاد کی پارٹیوں کو کس سطح پر اپنی کارکردگی کا مظاہر ہ کرنا چاہئے عوام تک پہونچنے کیلئے سیکولر سوچ کے حامل رائے دہندوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے جمود کو ختم کر کے انہیں سیکولرازم کے اصل دھارے میں واپس لانا ہوگا ۔ ملک کا رائے دہندہ سیکولر ہے اور اس کو گمراہ کیا گیا ہے عوام کو گمراہی سے بچاناے قومی و علاقائی سیکولر پارٹیوں کو سخت جدوجہد کرنی ہوگی۔