سیکولرامیج بچانے کیلئے مسلم تحفظات کا سہارا

ٹی آر ایس حکومت کا مرکز کو مکتوب، سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کے بجائے مسلمانوں کو خوش کرنے رسمی کارروائی
حیدرآباد 7 مئی (سیاست نیوز) تیسرے محاذ کے نام پر بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے الزامات سے پریشان چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے مسلمانوں اور درج فہرست قبائل کے تحفظات پر مرکز کو دوبارہ مکتوب روانہ کرکے اپنے سیکولر امیج کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مسلم اور ایس ٹی تحفظات میں اضافہ سے متعلق تلنگانہ اسمبلی کے منظورہ دونوں بلز کو مرکزی حکومت نے یہ کہتے ہوئے واپس کردیا کہ سپریم کورٹ کی مقررہ حد یعنی 50 فیصد سے زائد تحفظات کی فراہمی دستور کی خلاف ورزی ہے۔ مرکز کی جانب سے تحفظات کے مسئلہ پر منفی جواب ملے ایک عرصہ گزر چکا ہے لیکن کے سی آر حکومت نے پھر اچانک مسلم تحفظات کے مسئلہ کو چھیڑ دیا اور ضابطہ کی تکمیل کے طور پر مرکز کو ایک مکتوب روانہ کردیا گیا ۔ چیف منسٹر نے پارلیمنٹ کے حالیہ بجٹ سیشن میں تحفظات کے مسئلہ پر مرکز سے لڑائی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اجلاس کے دوران محض کارروائی میں رکاوٹ کے کچھ نہیں کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ حالیہ عرصہ میں تیسرے محاذ کے قیام کی کوششوں کے دوران سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ ٹی آر ایس درپردہ بی جے پی کی تائید کر رہی ہے اور وہ تیسرے محاذ کے ذریعہ کانگریس کے حلیفوں کو یو پی اے سے علحدہ کرنا چاہتی ہے۔ کے سی آر حکومت نے اس تاثر کو ختم کرنے تحفظات کا مسئلہ دوبارہ چھیڑ دیا جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ مرکز کی جانب سے ایک مرتبہ مسترد کئے جانے کے بعد حکومت کے پاس واحد راستہ عدالت سے رجوع ہونا ہے۔ کے سی آر نے مرکز سے قبولیت نہ ملنے پر سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا اعلان کیا تھا لیکن آج تک اس سلسلہ میں پیشرفت نہیں کی گئی ، برخلاف اس کے رسمی طور پر دوبارہ ایک مکتوب مرکز کو روانہ کرکے مسلمانوں و درج فہرست قبائل کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ۔ بی جے پی مرکزی حکومت نے بارہا اس بات کی وضاحت کردی کہ وہ مذہب کی بنیاد پر تحفظات کی تائید نہیں کریگی ۔ اسکے باوجود دوبارہ اسے مکتوب روانہ کرنا اپنی توانائیوں کو ضائع کرنا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ تلنگانہ حکومت کی جانب سے روانہ کردہ دونوں بلز کو ڈپارٹمنٹ آف پرسونل نے یہ کہتے ہوئے واپس کردیا کہ تحفظات میں اضافہ 1992 سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت نے مسلمانوں کیلئے موجودہ 4 فیصد تحفظات کو بڑھا کر 12 فیصد اور ایس ٹی طبقہ کے 6 فیصد تحفظات کرنے کا فیصلہ کرکے بل منظور کئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق مرکز کے اعتراضات کا جواب تیار کرکے جو رپورٹ تیار کی گئی ، اسے چیف منسٹر اور لا ڈپارٹمنٹ کی منظوری کے بعد مرکز کو روانہ کیا گیا ۔ تلنگانہ حکومت نے استدلال پیش کیا ہے کہ ایس ٹی اور مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کے پیش نظر تحفظات کے فیصد میں اضافہ کا مطالبہ واجبی ہے۔ حکومت کے مطابق متحدہ آندھراپردیش میں ایس ٹی طبقہ کی آبادی 50 فیصد تھی جو تلنگانہ میں بڑھ کر 9.08 فیصد ہوگئی ۔ اسی طرح متحدہ آندھرا میں مسلمانوں کی آبادی 9.56 فیصد تھی جو تلنگانہ میں بڑھ کر 12.68 فیصد ہوچکی ہے۔ حکومت کی رپورٹ میں بی سی کمیشن ، سدھیر کمیشن اور چلپا کمیشن کی رپورٹس کا حوالہ دیا گیا جس میں مذکورہ طبقات کی پسماندگی کا احاطہ کیا گیا ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 80 فیصد مسلمان پسماندہ ہیں۔ ٹی آر ایس حکومت ٹاملناڈو کی طرز پر اضافی تحفظات کو دستور کے 9 ویں شیڈول میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔