تحدیدات پر احتجاج سے بچنے کارپس فنڈ اور ہیلت کارڈ جیسے تیقنات ۔ مشیروں کی رائے پر چیف منسٹر کا عمل
حیدرآباد 24 فبروری ( سیاست نیوز)تلنگانہ حکومت کیلئے ابھی تک عمارتیں ہی بدشگونی کی علامت سمجھی جارہی تھیں لیکن گذشتہ دنوں صحافی بھی اسی زمرے میں شامل ہوچکے ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ جو واستو اور بدشگونی پر کچھ زیادہ ہی ایقان رکھتے ہیں انہوں نے نظم و نسق میں ہر موڑ پر واستو ماہرین کی رائے کو اہمیت دی ۔ سکریٹریٹ اور اپنی سرکاری قیام گاہ میں تبدیلیوں کے علاوہ چیف منسٹر نے سکریٹریٹ اور اس کے اطراف و اکناف کے علاقوں کو بھی واستو کے مطابق تیار کرنے کی کارروائی شروع کی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب میڈیا بھی چیف منسٹر کے واستو کے تحت دکھائی نہیں دیتا جس کیلئے انہوں نے میڈیا پر تحدیدات عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ صحافیوں کی تنظیموں کی مخالفت کے باوجود تلنگانہ حکومت تحدیدات عائد کرنے کی سمت پیشقدمی کررہی ہے ۔ صحافیوں کی بھلائی کیلئے 100 کروڑ کے کارپس فنڈ کا تیقن دینے والے چندرا شیکھر راؤ دوسرے انداز میں آزادی صحافت کو نشانہ بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔اسے محض اتفاق سمجھا جائے یا پھر سوچی سمجھی کارروائی کہ چیف منسٹر کے واستو مشیر سدھاکر تیجا نے جس دن اپنے عہدہ کی ذمہ داری سنبھالی اسی دن سے چیف منسٹر کے دفتر سی بلاک میں میڈیا کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی۔ پریس اکیڈیمی اور حکومت کے نمائندوں کی جانب سے اگر چہ تحدیدات کی تردید کی جارہی ہے لیکن روزانہ سکریٹریٹ میں خدمات انجام دینے والے صحافیوں کو تحدیدات کا سامنا ہے۔ چیف منسٹر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اُن کے مشیروں نے موجودہ صورتحال میں صحافت سے دوری اختیار کرنے کا مشورہ دیا جس کی بنیاد پر چیف منسٹر صحافت کا سامنا کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر کی منظوری سے ہی سکریٹریٹ میں صحافیوں کے داخلے کو روکنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں صحافیوں کی تنظیموں کے احتجاج کو روکنے کیلئے کارپس فنڈ اور ہیلت کارڈ جیسے تیقنات دیئے گئے ۔ نئی دہلی میں مرکزی حکومت کے اہم دفاتر میں بھی اس طرح کی تحدیدات نہیں جس طرح کے تلنگانہ حکومت عائد کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ تحدیدات کے مسئلہ پر جب حکومت کے ایک مشیر نے صحافیوں سے وضاحت کی کوشش کی تو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے چیف منسٹر کا دفتر سی بلاک نہیں بلکہ نیو کلیئر تنصیبات کا مرکز ہو جس کی حفاظت ضروری ہے ۔ تحدیدات کے سلسلہ میں انٹلی جنس رپورٹ اور چیف منسٹر کو خطرے کی باتیں مضحکہ خیز ہیں ۔ صحافیوں پر تو سی بلاک میں داخلہ پر پابندی ہے لیکن ٹی آر ایس کے غیر اہم قائدین بھی وزراء اور عوامی نمائندوں کے ساتھ کسی تلاشی کے بغیر سی بلاک میں داخل ہورہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف منسٹر کو آخر صحافیوں سے کیا خطرہ ہے یا پھر کس طرح صحافی حکومت کیلئے بدشگونی کی علامت ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سکریٹریٹ میں وزراء اور ٹی آر ایس کے عوامی نمائندوں کی جانب سے کئے جارہے ہیں بعض من مانی فیصلوں پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ پابندگی عائد کی جارہی ہے ۔ اگر حکومت شفافیت پر یقین رکھتی ہے تو اسے صحافتی آزادی کا لحاظ کرنا چاہئے ۔ چندرا شیکھر راؤ جس وقت ٹی آر ایس کے صدر تھے وہ صحافیوں سے ہمیشہ قریب رہتے تھے تا کہ تلنگانہ تحریک کو صحافت کی تائید حاصل ہو۔ تلنگانہ سے زیادہ سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے اخبارات و ٹی وی چینلس کے نمائندوں کو خصوصی طور پر مدعو کرتے ہوئے چندر شیکھر راؤ تبادلے خیال کرتے رہے لیکن حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی اُن کے رویہ میں تبدیلی باعث حیرت ہے۔