سیلاب قومی سانحہ

ایک عالم ہے پریشان مصائب سے مگر
ان کو اس میں بھی سیاست ہی نظر آتی ہے
سیلاب قومی سانحہ
جموں و کشمیر میں بارش و سیلاب کی تباہ کاریوں سے اِنسانی امداد و سانحہ کا سنگین مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا معائنہ کرنے کے بعد اس کو ’’قومی سانحہ‘‘ قرار دیا، تاہم امداد کے لئے صرف 1,000 کروڑ روپئے کی رقم کا اعلان کیا گیا جو تباہی و بربادی کے ہولناک سانحہ سے نمٹنے کیلئے ناکافی ہے۔ چیف منسٹر جموں و کشمیر عمر عبداللہ نے سیلاب متاثرین کے لئے ریاستی نظم و نسق کی جانب سے جتنا ممکن ہوسکتا تھا، امدادی کام انجام دیا ہے لیکن ریاستی حکومت کے پاس اس طرح کی آفات سماوی سے نمٹنے کے لئے کوئی تیار منصوبہ نہ ہو تو سیلاب متاثرین کو راحت پہونچانے کی کوشش ناکافی ثابت ہوتی ہے۔ بارشوں نے ملک کے کسی بھی حصہ میں تباہی مچاکر اپنا بھیانک اثر دکھایا ہے۔ گزشتہ سال اُتراکھنڈ کے نقصانات سے سبق حاصل نہ کرنے والی ہماری حکومتوں نے اس مرتبہ جموں و کشمیر میں بھی ناکامیوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ جموں و کشمیر میں غیرمعمولی تباہی سے نمٹنے کے لئے جنگی بنیادوں پر ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں امدادی کام انجام دینا اور عملی طور پر متاثرین تک راحت پہونچانا ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے، اس کے لئے مرکز اور ریاستی سطح کی مشنری کو مشترکہ طور پر جامع کوشش کرنی چاہئے۔ جموں و کشمیر کے عوام حقیقی طور پر قابل رحم حالات سے دوچار ہیں۔ یہ لوگ اب تک سیاسی ناکامیوں کا شکار رہے ہیں تو اب غیرمعمولی تباہ کن سیلاب نے ان کا بھاری نقصان کردیا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ 12.8 ملین عوام کے لئے صرف 1,000 کروڑ روپئے کی امداد ناکافی ہے۔ مرکز نے حال ہی میں صرف 18,000 کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری کے لئے 500 کروڑ روپئے منظور کئے تھے۔ قدرتی آفات کا شکار افراد کو مذہب اور علاقہ واری سطح پر تقسیم کرکے نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ ہندوستان میں اس طرح کے قومی سانحہ کا واقعہ نیا نہیں ہے۔ قدرتی آفات تو کسی وقت بھی آسکتی ہیں۔ حکومتیں وہ چاہے مرکز کی ہوں یا ریاستی، قدرتی آفات کا عین اس وقت نوٹس لینے کی عادت بنالی ہے، جب پانی انسانوں کی زندگی سے گذر چکا ہوتا ہے۔ جموں و کشمیر کے کئی مواضعات زیرآب آچکے ہیں۔ کسی بھی واقعہ کے بعد سب سے زیادہ دیہات ہی متاثر ہوتے ہیں ،عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ بارش سے راستے مسدود ہونے ، مواصلاتی نظام منقطع ہونے سے امدادی کام ان لوگوں تک نہیں پہنچایا جاسکتا۔ بارش اور زرعی شعبہ سے وابستہ افراد کا قریبی تعلق ہوتا ہے، کسان آبی گذر گاہوں سے دُور نہیں رہ سکتے۔ اس لئے ان کو سیلاب جیسی صورتحال سے بچانے اور امداد پہونچانے کا کوئی قومی نظام نہیں ہے۔ کسی بھی تباہی کے بعد عوام حتی الامکان اپنے لئے زندہ رہنے کا بندوبست کرلیتے ہیں، مگر وہ حکومت کی امداد سے محروم رہتے ہیں۔ حکومت یا سرکاری مشنری کی غفلتوں، بے ایمانیوں کے باعث جب غریب عوام کی سروں سے چھت نکل جاتی ہے تو کھلے آسمان کو ہی سہارا بناکر زندگی گزارتے ہیں۔ ایسے دیہاتوں اور ایسے عوام اور سیلاب سے تباہ لوگوں کی خبرگیری کرنے میں بھی حکومت اور اس کی مشنری ناکام ہو تو اس کو ’’سانحہ عظیم‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر کے سیلاب کو ’’قومی سانحہ‘‘ قرار دیا ہے تو اس خطوط پر متاثرہ عوام کی امداد کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اس بحران کے وقت کسی کو اس پر سیاست کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی دینی چاہئے۔ وزیراعظم مودی نے سیلاب کی تباہیوں سے متاثرہ پاک مقبوضہ کشمیر کے لئے بھی امداد کی پیشکش کی ہے۔ اگر حکومت پاکستان اس نازک گھڑی میں ہندوستان سے امداد کی متمنی ہے تو انسانی جذبات کو ملحوظ رکھ کر آگے آنا چاہئے۔ ملک بھر کے عوام سے اپیل کرتے ہوئے مودی نے یہی پیام دیا ہے کہ جموں و کشمیر کے سیلاب نے انسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا درس دیا ہے تو تمام شہریوں کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا۔ اگست اور ستمبر کے مہینوں میں بارش اور سیلاب کے اندیشہ قوی رہتے ہیں، اس کے باوجود حکومت اور سرکاری مشنری تباہی کے بعد ہی جاگتی ہے تو یہ ’’سانحہ در سانحہ‘‘ کہلاتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے مطابق اس نازک صورتحال میں ہر ایک کو حقیقی جذبہ کے ساتھ امداد کے لئے آگے آنا ہوگا۔ پڑوسی ملک پاکستان میں بھی سیلاب کی تباہی مچی ہوئی ہے تو ایک پڑوسی ہی دوسرے پڑوسی کے کام آتا ہے تو اس کو حقیقت کی مثالی شکل دینا ضروری ہے۔