فقیہ الاسلام‘ ثانی ٔابوحنیفہ حضرت ابوالوفا افغانیؒ
آپ کا اسم مبارک سید محمود شاہ ، کنیت ابوالوفاء ، والد کا نام سید مبارک شاہ قادری علیہ الرحمہ ۔ آپ بروز جمعہ ۱۰؍ ذی الحجہ ۱۳۱۰ھ افغانستان کے شہر قندھار میں پیدا ہوئے۔ آپ حسنی سادات سے ہیں۔ والد بزرگوار حضرت سید مبارک شاہ بڑے متقی، پرہیزگار اور صاحب کشف و کرامات تھے۔ ابتدائی تعلیم آپ اپنے والد بزرگوار اور شہر کے معروف اساتذہ کرام سے حاصل فرمایا۔ (۱۴) سال کی عمر شریف میں والد محترم نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ علم کی طلب اور جستجو نے آپ کو وطن مالوف چھوڑنے پر مجبور کیا۔ چنانچہ آپ نے سرزمینِ ہند کارُخ کیا اور ۱۳۳۰ ھ میں ازہرِ ہند جامعہ نظامیہ کی علمی شہرت کے پیش نظر حیدرآباد تشریف لائے اور نامور علماء کرام کی نگرانی میں اور محنت شاقہ کے ذریعہ علوم عقلیہ و نقلیہ میں دسترس حاصل کیا اور عنفوانِ شباب ہی سے ممتازمحقق ، متقی و باعمل علماء میں شمار کئے جانے لگے ۔ آپ بانی جامعہ نظامیہ عارف باللہ حضرت العلامہ حافظ انوار اللہ خاں فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی خدمت مبارک میں زانوئے تلمذ طے کرکے خوب استفادہ فرمایا۔ آپ کے علمی ذوق، ادب و احترام کی وجہ سے بانی جامعہ نظامیہ کے نور نظر بن گئے۔آپ کا عظیم الشان کارنامہ ’’ادارہ احیاء المعارف النعمانیہ‘‘ کی تاسیس ہے جو آپ نے ۱۳۴۸ ہجری میں رکھی۔ اس ادارہ کا بنیادی مقصد حضرات ائمہ کرام، امام الائمہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ، امام محمد بن حسن شیبانی وغیرہم کی تصانیف کو معیاری مقدمات ، تحقیق و تعلیق اور حواشی کے ساتھ اعلی کتابت و طباعت کے ذریعہ عوام الناس کو متعارف کروانا تھا۔احیاء المعارف کی کتابیں قاہرہ سے شائع ہونے لگیں جس کی وجہ سے عالم عرب اور عالم اسلامی میں علم و ادب اور قانون اسلامی کے شہ پارے منظر عام پر آئے اور علماء اُمت اپنے اسلاف کے ان عظیم کارناموں سے استفادہ کرنے لگے۔ مولانا کا توکل و اخلاص کا یہ عالم تھا کہ اپنی حینِ حیات میں آپ اس ادارہ کی خدمت کے صلہ میں ایک حبہ سیاہ نہیں لیا۔آپ اپنے دولت کدہ جلال کوچہ پر ہر یکشنبہ تقریباً تین گھنٹے درس حدیث شریف و درس تصوف دیا کرتے تھے۔ آپ کی پوری زندگی توکل کی وادیٔ ایمن میں بسر ہوئی۔ زہد کا یہ عالم تھا کہ فاقے گذرتے تھے۔ آپ زاہد، متوکل، متقی، قائم اللیل، سنتوں کے سختی سے پابند، مستحبات کو چھوڑنے کو بھی مکروہ سمجھتے، آپ کی پوری زندگی مطالعہ، تحقیق و تعلیق، علماء کرام و اساتذہ کی تربیت میں صرف ہوئی، حق گوئی و بے باکی آپ کا شیوہ تھا ، شریعت کے معاملے میں کسی کی ملامت کا خوف نہ کرتے، رہن سہن معمولی اورکھانا بالکل سیدھا سادھا ، عطریات کے دلدادہ ، ہمیشہ اپنے کپڑوں کو قیمتی عطریات سے معطر رکھتے، عموماً جبہ زیب تن فرماتے اور سر پر عمامہ رہتا۔ راتیں مناجات و گریہ وزاری میں گذارتے۔ آپ پابندی کے ساتھ اولیائے کرام کی بارگاہوں پر حاضری دیا کرتے اور بغرض ایصال ثواب اُن کے لیے ختم قرآن کا اہتمام فرماتے ۔ آپ ایسے سچے عاشق رسول تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر مبارک کے وقت آنکھوں سے آنسو چھلک جاتے تھے۔ باطل فرقوں اور قادیانیوں سے مناظرے بھی کیا کرتے۔ آپ مسلکِ حنفی کے راسخ العقیدہ مقلد تھے اور اپنے زمانے کے اہل علم آپ کو ’’ابوحنیفہ ثانی‘‘ ، ’’امام اعظم ثانی‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
آپ ۱۳؍رجب المرجب ۱۳۹۵ھ کو اس دارفانی سے کوچ فرمایا۔ نماز جنازہ جامعہ نظامیہ میں ادا کی گئی۔ حسبِ وصیت حضرت ابوالفداء پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالستار خاںؒ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کا مزارپرانوار نقشبندی چمن حضرت ابوالحسنات محدث دکنؒ میں مرجع خاص و عام وابستگان ہے۔