سید ابراہیم ٹی آر ایس سے مستعفی، محبوب نگر سے مقابلہ کا اعلان

صدر ٹی آر ایس پر شدید تنقید، مختلف جماعتوں سے ٹکٹ کی پیشکش کا ادعا

حیدرآباد /28 مارچ (سیاست نیوز) سید ابراہیم نے سربراہ ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ کو مفاد پرست اور دھوکہ باز قرار دیتے ہوئے ٹی آر ایس سے مستعفی ہونے اور 2014ء کے عام انتخابات میں حلقہ اسمبلی محبوب نگر سے مقابلہ کرنے کا اعلان کیا۔ آج انھوں نے اپنے حامیوں کا اجلاس طلب کیا، جس میں اتفاق رائے سے ٹی آر ایس سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ علحدہ تلنگانہ تحریک میں انھوں نے اہم رول ادا کیا، محبوب نگر میں ٹی آر ایس کے استحکام کے لئے پوری دیانتداری سے کام کیا، اپوزیشن کا ڈٹ کر سامنا اور کئی نقصانات برداشت کئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے 2009ء کے علاوہ ضمنی انتخابات میں مقابلہ کیا اور معمولی ووٹوں سے شکست کا سامنا کیا، جب کہ میری شکست میں ٹی این جی اوز کے قائد سوامی گوڑ نے اہم رول ادا کیا، جس کی شکایت وہ سربراہ ٹی آر ایس سے کرچکے ہیں۔ لیکن ان سے دوری بنائے رکھنا تو دور کی بات، کے چندر شیکھر راؤ نے انھیں انعام کے طورپر 2014ء کے انتخابات میں حلقہ اسمبلی محبوب نگر سے ٹی آر ایس کا ٹکٹ دینے کا اعلان کیا اور اپنے اس فیصلہ سے قبل مجھ سے یا حلقہ اسمبلی محبوب نگر کے پارٹی کارکنوں سے بات چیت کرنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ برسوں سے ٹی آر ایس کے لئے کام کرنے والے میرے حامیوں کو ایم پی ٹی سی اور زیڈ پی ٹی سی ٹکٹوں سے محروم رکھا گیا۔

مستقبل کی حکمت عملی کے تعلق سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے سید ابراہیم نے کہا کہ کئی جماعتیں ٹکٹ کے لئے پیشکش کر رہی ہیں، مگر وہ اپنے حامیوں سے مشورہ کے بعد ہی قطعی فیصلہ کریں گے اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو بحیثیت آزاد امیدوار بھی مقابلہ سے گریز نہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ 2009ء میں حلقہ لوک سبھا محبوب نگر سے کامیابی حاصل کرنے کے لئے مجھے بحیثیت مسلم امیدوار ٹکٹ دیا تھا، تاکہ مسلمانوں کی تائید حاصل کرسکیں، لیکن اب اپنی دختر کویتا کو حلقہ لوک سبھا نظام آباد سے کامیاب بنانے کے لئے حلقہ اسمبلی بودھن سے ایک مسلم قائد کو امیدوار بنایا جا رہا ہے، تاکہ ان کی دختر کامیاب ہو سکیں۔ انھوں نے کہا کہ کے چندر شیکھر راؤ وعدہ کے پابند نہیں ہیں، انھوں نے تلنگانہ ریاست کا پہلا چیف منسٹر دلت قائد کو بنانے کا اعلان کیا تھا، لیکن اب اس سے منحرف ہو گئے، یہاں تک کہ کسی مسلمان کو ڈپٹی چیف منسٹر بنانے کا بھی امکان نہیں ہے۔ اسی طرح پانچ مسلم قائدین کو وزیر بنانے کا اعلان کیا تھا، تاہم تلنگانہ کے دس اضلاع میں ایک بھی مسلم صدر نہیں ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر 12 مسلمانوں کو بھی اسمبلی حلقہ جات کا انچارج نہیں بنایا گیا، اسی لئے وہ تلنگانہ کے عوام بالخصوص مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ٹی آر ایس اور اس کے سربراہ پر ہرگز بھروسہ نہ کریں۔